انڈیا بڑی خلائی طاقت کے طور پر اُبھر رہا ہے

انڈیا خفیہ طور پر بین البراعظمی بیلسٹک میزائل پروگرام ’سوریا‘ پر پیشرفت جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے لندن، پیرس اور نیویارک جیسے شہر بھی انڈین میزائلوں کے نشانے پر آ جائیں گے۔

26 جنوری 2013 کو دہلی میں انڈین یوم جمہوریہ پر میزائل اگنی V کی نمائش کی گئی (رویندرن/ اے ایف پی)

صدر بائیڈن کے آخری ایام میں، امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر وابستہ چار اداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

ساتھ ہی بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی، جان فائنر نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پاکستان میزائل کی ایسی موٹریں بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جن سے اسے جنوبی ایشیا سے باہر بھی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی، جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

امریکہ نے اس کے ثبوت کے طور پر کالا چٹا پہاڑ میں، اٹک کے نزدیک این ڈی سی کی ایک ٹیسٹنگ سائٹ کی خلا سے بنائی گئی تصویر بھی پیش کی ہے، جہاں پر ایسے تجربات کیے جا رہے ہیں۔

امریکہ میں قائم ہتھیاروں پر کنٹرول کے ادارے ’آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن‘ کے مطابق دنیا میں 31 ممالک ایسے ہیں جن کے پاس یا تو بیلسٹک میزائل موجود ہیں یا پھر وہ ان کی تیاری کی کوششیں کر رہے ہیں، مگر ان میں صرف پانچ ممالک ایسے ہیں جن پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان میں چین، شمالی کوریا، ایران، بیلاروس اور پاکستان شامل ہیں۔ پاکستان، جو ماضی قریب تک امریکی اتحادی شمار کیا جاتا رہا ہے، اب اسے امریکہ کی جانب سے اُن ممالک میں کیوں شامل کیا جا رہا ہے، جن سے امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے؟

اس سوال کا جواب حال ہی میں سامنے آنے والی ایک کتاب Sabre Rattling in Space: A South Asian Perspective میں دیا گیا ہے، جسے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ ایک پاکستانی ماہر، ڈاکٹر احمد خان نے امریکی محقق Eligar Sadeh کے ساتھ مل کر تصنیف کیا ہے اور جسے سنگاپور کے اشاعتی ادارے Springer  نے شائع کیا ہے۔ علیگر صادیح خلائی سائنس کے ماہر ہیں، جو ناسا سے وابستہ رہنے کے علاوہ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دے چکے ہیں۔ کتاب میں امریکہ، چین، انڈیا اور پاکستان کے خلائی پروگراموں اور پالیسیوں پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

انڈیا کا خلائی پروگرام، جسے روس اور امریکہ دونوں کی مدد حاصل ہے

انڈیا کا خلائی پروگرام 1968 میں اس وقت شروع ہوا جب انڈیا کی خلائی ایجنسی ISRO کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اگلے 20 سال میں ISRO نے نہ صرف سیٹلائٹ بنائے، بلکہ انہیں خلا میں بھیجنے والے راکٹ بھی تیار کر لیے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ انڈیا کا دعویٰ کہ اس نے ساری ٹیکنالوجی اپنے طور پر اور اپنے ماہرین کی مدد سے تیار کی ہے، حقیقت کے منافی ہے۔ انڈیا کو شروع ہی سے سوویت یونین، امریکہ، جرمنی اور فرانس کی مدد حاصل تھی، جو آج تک جاری ہے، جس کی ایک مثال امریکی پابندیوں میں حالیہ نرمی ہے۔

صدر بائیڈن نے اپنے دورِ حکومت کے آخری ایام میں ایک صدارتی ہدایت نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت امریکہ کے قریبی ممالک کو میزائل ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی سہولتوں میں نرمی کر دی گئی تھی، جس سے انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان کو خلا سے متعلق ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی سہولت مل جائے گی۔ انڈیا کے تقریباً 60 کے قریب سیٹلائٹس خلا میں موجود ہیں، جو فوجی اور سویلین مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ وہ ایک بڑی خلائی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔

انڈیا نے 2019 میں خلا میں میزائل کے ذریعے ایک سیٹلائٹ بھی تباہ کیا تھا، جس کے بعد انڈیا ان چار ممالک میں شامل ہو گیا تھا، جو اس طرح کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکہ انڈیا کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر خاموش کیوں ہے؟

انڈیا اپنے خلائی پروگرام کو بین البراعظمی بیلسٹک میزائل سسٹم کی ترقی کے لیے استعمال کر رہا ہے، جس کے ثبوت کے طور پر کتاب میں لکھا گیا ہے کہ انڈیا کے پاس اپنے سیٹلائٹس خلا کے دور دراز مداروں میں بھیجنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انڈیا کے پاس GSLV، PSLV اور SLV خلائی راکٹ موجود ہیں، جو اس نے روس کی مدد سے بنائے ہیں۔ انڈیا نے خلائی راکٹوں کی یہ ٹیکنالوجی بین البراعظمی میزائل بنانے میں بھی استعمال کی ہے۔ اس کے پاس میزائلوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، جو روایتی اور جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انڈیا کے پاس اگنی 5 میزائل ہے، جو 8000 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کے اگنی 6 میزائل کی رینج 10 سے 12 ہزار کلومیٹر تک ہے۔ انڈیا خفیہ طور پر بین البراعظمی بیلسٹک میزائل پروگرام ’سوریا‘ پر پیشرفت جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے لندن، پیرس اور نیویارک جیسے شہر بھی انڈیا کے میزائلوں کے نشانے پر آ جائیں گے۔ لیکن انڈیا امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ اس نے اپنا جوہری اور میزائل پروگرام پاکستان اور چین کے اندر اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بنا رکھا ہے۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

کتاب میں لکھا ہے کہ خلائی ٹیکنالوجی میں جو امریکی مدد آج انڈیا کو حاصل ہے، کبھی یہ پاکستان کو حاصل تھی۔ سرد جنگ کے دور میں ناسا اور سپارکو کے درمیان خاصا اشتراک تھا، لیکن پھر وقت بدلا تو امریکہ کے اتحادی بھی بدل گئے۔

امریکہ نے پاکستان کی نیشنل سپیس ایجنسی سپارکو کو اپنی Entity List میں ڈال کر اس پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان اور چین خلائی سائنس میں اتحادی کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ چین کی ابھرتی ہوئی معاشی اور خلائی طاقت کے خلاف امریکہ اور انڈیا سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کا نام iCET رکھا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق انڈیا کو خلا کے ساتھ جوہری، مصنوعی ذہانت، نینو ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی اور دیگر کئی شعبوں میں امریکی مدد فراہم کی جائے گی۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا کو جدید ڈرون ملنے والے ہیں، جو عسکری اہداف کا تعین کر سکتے ہیں۔ انڈیا نے امریکہ کے ساتھ مل کر دنیا کا سب سے مہنگا سیٹلائٹ تیار کیا ہے، جس کا نام NISAR رکھا گیا ہے اور جسے اس سال جون میں خلا میں بھیجا جائے گا۔

انڈیا کا خلائی پروگرام اب فوجی مقاصد میں تبدیل ہو چکا ہے، جبکہ اس کے برعکس پاکستان کا خلائی پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال اس کے سیٹلائٹس ہیں، جن میں PakSAT-IR، PRSS-I، EO-I، اور Paksat-MM1 شامل ہیں، جن کے مقاصد پُرامن بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ سیٹلائٹس پاکستان کے دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

پاکستان نے اپنی سپیس پالیسی 2023 میں بنائی تھی، جس کے مقاصد علمی اور معاشی ہیں۔ اس کے تحت سپیس ایکٹیویٹی رول بورڈ بھی بن چکا ہے، جو سٹار لنک کو انٹرنیٹ کی فراہمی کی اجازت دینے پر غور کر رہا ہے۔ پاکستان جس خلائی شعبے میں امریکی کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دے رہا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی شعبے میں پاکستان بین البراعظمی میزائلوں پر بھی کام کر رہا ہو؟ یہ بات تکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام صرف انڈیا کے خلاف دفاعی حکمت عملی کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس کے مقاصد بین البراعظمی نہیں ہیں۔ یہ کتاب اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس میں پاکستان اور انڈیا کے میزائل اور خلائی پروگراموں کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، جسے پڑھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی انڈیا کے خلائی پروگرام کو چین کے مقابلے میں ترقی دینے کے لیے بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ ایسے میں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ انڈیا کے سوریا میزائلوں کا ہدف نیویارک، لندن یا پیرس بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کل کے اتحادی پاکستان کو آج امریکہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے، تو کل یہی سب کچھ انڈیا کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ