گوجرانوالہ کے عامر علی بھی ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو مراکش کشتی واقعے میں بچ کر وطن واپس پہنچے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ آئندہ کبھی ڈنکی کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ کیٹل فارمنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں، لیکن باقی نوجوانوں کی طرح انہیں بھی یورپ جانے کا شوق تھا کیونکہ ان کے مطابق پاکستان میں ان کا بہتر مستقبل غیریقینی تھا۔
عامر بتاتے ہیں کہ انہیں پتہ چلا کہ ایک ایجنٹ، جو ان کا رشتہ دار بھی ہے، کئی لڑکوں کو سپین بھجوا چکا ہے، تو انہوں نے بھی اس ایجنٹ سے رابطہ کر کے اپنے ارادے کے متعلق بتایا۔
ایجنٹ نے انہیں بتایا کہ سپین جانے کے لیے دو سے تین ماہ کا عمل ہو گا، جبکہ 12 لاکھ روپے ابھی اور بقایا رقم سپین پہنچ کر ادا کرنا ہو گی۔
رقم کی ادائیگی کے بعد ایجنٹ نے انہیں بتایا کہ ان کا سپین کا ویزا لگ گیا ہے اور انہیں کراچی ہوائی اڈے سے سفر کرنا ہے لیکن جب وہ کراچی ہوائی اڈے پر پہنچے تو ایجنٹ نے بتایا کہ سپین کی براہ راست پرواز میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ پہلے سینیگال اور پھر وہاں سے سپین کے لیے روانہ ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق جب وہ سینیگال پہنچے تو وہاں انہیں ٹیکسی میں بٹھا کر یہ کہہ کر موریطانیہ کے بارڈر پر لے جایا گیا کہ ایمبیسی بارڈر پر واقع ہے اور وہاں سے ویزا لینے کے بعد وہ موریطانیہ میں داخل ہو کر آگے سپین کے لیے سفر کریں گے۔
اس موقع پر ان کے ایجنٹ نے یہ کہتے ہوئے مزید 12 لاکھ روپے دینے کا مطالبہ کیا کہ اس نے ان کا موریطانیہ کا وزٹ ویزا لگوانا ہے۔
عامر مزید بتاتے ہیں کہ موریطانیہ میں وہ مختلف انسانی سمگلروں کے ہاتھوں بکتے رہے اور تقریباً ساڑھے چار ماہ کا عرصہ مختلف سیف ہاؤسز میں گزارا۔
نئے سال کے آغاز سے کچھ دن پہلے ان کے ایجنٹ کی جانب سے مزید 21 لاکھ روپے دینے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ انہیں جلد سپین کی ’گیم‘ کے لیے بھجوا دیا جائے گا۔
عامر نے بتایا کہ ان کے گھر والوں نے زمین بیچ کر یہ رقم ادا کی، جس کے بعد دو جنوری کو چند سیاہ فام افراد کے حوالے کرتے ہوئے انہیں کشتی پر بٹھا دیا گیا۔
ان کے مطابق کشتی پر 40 مسافروں کی گنجائش تھی، لیکن اس پر 86 افراد سوار تھے، جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے، اور ان کے ساتھ کھانے پینے کے علاوہ دیگر سامان بھی تھا۔ ’کشتی میں بیٹھنا تو دور، جگہ کی تنگی کے باعث کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔
ان افراد نے کشتی پر وزن کم کرنے کے لیے آدھا سامان سمندر برد کر دیا اور بقایا سامان اپنے واسطے رکھ لیا۔‘
عامر مزید یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’بھوک پیاس کی وجہ سے مسافروں کی طبیعت ناساز ہونے لگی اور بھوک سے اموات ہونا بھی شروع ہو چکی تھیں۔ اچانک پانچویں دن کشتی بیچ سمندر میں رک گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ پٹرول ختم ہو گیا ہے۔‘
’ابھی اسی پریشانی میں تھے کہ ان افراد نے آ کر ہم پر ہتھوڑیوں اور دیگر آہنی چیزوں سے تشدد شروع کر دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ بھوک کے بعد اب تشدد سے جان جانے کا خوف تھا۔ ’سیاہ فام افراد جب چاہتے، تشدد کرنا شروع کر دیتے اور مرنے والوں کی لاشیں سمندر میں پھینک دیتے۔‘
عامر کے مطابق سیاہ فام افراد ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ تشدد سے مرنے والوں کی لاشیں وہ خود سمندر میں پھینکیں، لیکن ہم میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی لاشیں اپنے ہاتھوں لہروں کی نذر کریں۔ اس بنا پر وہ سیخ پا ہوتے اور مزید تشدد کرتے تھے۔
عامر خود بھی کئی بار اس جان لیوا تشدد کا نشانہ بنے، جس میں ان کی پنڈلیوں اور کمر پر ہتھوڑیوں سے ضربیں لگائی گئیں۔
عامر کے مطابق ان کی لاشوں کا شاید نام و نشان بھی نہ ملتا، لیکن کھلے سمندر میں کھڑی کشتی کے لیے تیرہویں دن مراکش کے مچھیرے زندگی کی امید بن کر سامنے آئے۔
ان کے مطابق ’کشتی کو دیکھتے ہی سب مسافروں نے شور مچا کر انہیں اپنی جانب متوجہ کیا اور قریب بلا کر اپنی حالت بتائی۔ یہ سب دیکھنے کے بعد مراکشی ماہی گیروں نے انہیں کھانے پینے کا سامان دیا۔
’سیاہ فام افراد مراکشی ماہی گیروں سے پٹرول اور کھانے پینے کی اشیا لینا چاہتے تھے، لیکن بچ جانے والے تمام پاکستانی ان ماہی گیروں کو انہیں اپنے ساتھ لے جانے پر مجبور کر رہے تھے۔‘
عامر بتاتے ہیں کہ مراکشی ماہی گیروں نے کچھ مسافروں اور سیاہ فام لوگوں کو اپنی کشتی میں منتقل کر کے تارکین وطن کی کشتی کو رسی کے ساتھ باندھ کر کھینچنا شروع کر دیا۔
’پندرہویں دن دونوں کشتیاں مراکش کے ساحل پر پہنچ چکی تھیں، جہاں مراکشی حکام نے تارکین وطن کی اس کشتی کے مسافروں کو وصول کر لیا۔‘
مراکش میں پاکستانی سفارت خانے اور دیگر حکام کے تعاون سے اب جب عامر اتنے کٹھن اور جان لیوا سفر کے بعد اپنے گھر گوجرانوالہ پہنچے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ کبھی ڈنکی کا یہ راستہ اختیار نہیں کریں گے بلکہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے باعزت روزگار کمانے کو ترجیح دیں گے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے 16 جنوری کو مغربی افریقہ کے ملک موریطانیہ سے روانہ ہونے والی ایک کشتی مراکش کے ساحل کے قریب الٹ جانے سے متعدد پاکستانیوں کے جان سے چلے جانے کی تصدیق کی تھی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق مراکش کشتی حادثے میں جان سے جانے والے پاکستانیوں میں سے اب تک 13 کی لاشیں وطن واپس پہنچا دی گئیں ہیں، جب کہ بقیہ پانچ کو اگلے ہفتے وطن منتقل کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میڈرڈ اور ناوارا میں قائم گروپ نے بتایا تھا کہ مراکش کے حکام نے 15 جنوری کو ایک کشتی سے 36 افراد کو بچایا، جو موریطانیہ سے دو جنوری کو سپین کے لیے روانہ ہوئی تھی اور اس میں 66 پاکستانیوں سمیت 86 تارکین وطن سوار تھے۔