دنیا بھر کے ممالک فرسودہ اور پرانے طریقوں سے آگے نکل کر نت نئے طریقوں کو اپنا رہے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
دنیا بھر میں شاہراہوں پر چمکنے والی لائنیں لگائی جاتی ہیں تاکہ اندھیرے میں ڈرائیوروں کو صحیح سمت کا اندازہ رہے یا پھر وہ ان لائنوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی لائٹیں لگا دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس مقصد کے لیے کیٹ آئیز یا پھر روڈ سٹڈز لگا دیے جاتے ہیں۔
اسلام آباد کا سیکٹر ایف سیون ہو یا نئی تعمیر شدہ ایران ایونیو، ان پر ایسی کیٹ آئیز نصب کی گئی ہیں، جن سے نہ صرف گاڑیوں کے ٹائروں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ موٹر سائیکل سواروں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
کیٹ آئیز پہلی بار برطانیہ میں 1935 میں متعارف کروائی گئی تھیں اور کئی دہائیوں تک استعمال کے بعد اس بات پر بحث شروع ہو گئی کہ آیا کیٹ آئیز مسئلے کا حل ہے یا ازخود مسئلہ ہے۔ اس بحث کے نتیجے میں فیصلہ کیا گیا کہ سڑکوں پر کیٹ آئیز نصب نہ کی جائیں۔
پاکستان میں اس کے بارے میں بحث تو بہت ہو چکی ہے اور اس کے خلاف مہم بھی چل چکی ہے لیکن حکام کو اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے۔ حکام اس بات سے بھی یا تو غافل نظر آتے ہیں یا پھر نظر انداز کرتے ہیں کہ روڈ سٹڈز کے باعث نہ صرف ٹائروں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ وہیل ٹیڑھے ہو سکتے ہیں اور گاڑی کے سسپنشن کو بھی نقصان ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ جانی نقصان ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے صوبائی حکام کو حکم دیا تھا کہ پشاور کی تمام سڑکوں سے کیٹ آئیز ہٹا دی جائیں۔ اسی طرح 2020 میں گجرات کے ڈسٹرکٹ اور سیشنز جج نے مقامی انتظامیہ کو حکم دیا کہ گاڑیوں کی رفتار کم کرنے کے لیے لگائی جانے والی کیٹ آئیز ہٹا دی جائیں کیونکہ ان سے گاڑیوں کے ٹائر خراب اور سسپنشنز کو نقصان پہنچتا ہے۔
کیا رفتار کم کروانے کا یہ ایک واحد طریقہ ہے؟ بالکل نہیں بلکہ موٹر وے پر بھی کئی جگہ چھوٹی چھوٹی لائنیں لگائی گئی ہیں، جن پر جا کر گاڑی آواز کرتی ہے اور ڈرائیور محتاط ہو جاتا ہے، کیوں نہ وہی لائنیں ایران ایونیو یا اسلام آباد یا دیگر شہروں کی سڑکوں پر بھی لگائی جائیں۔
چند سال قبل اسلام آباد میں نصب کی گئی کیٹ آئیز کو اس وقت ہٹایا گیا جب ایک اعلیٰ شخصیت کی لینڈ کروزر کا ٹائر ان لائٹوں کی وجہ سے پھٹا اور وہ لینڈ کروزر الٹ گئی، جس میں ان شخصیت کی موت واقع ہوئی، لیکن اس کے چند سال بعد کیٹ آئیز شہر میں دوبارہ نصب ہونے لگ گئیں۔
جب ایک لینڈ کروزر کا ٹائر ان کیٹ آئیز کی وجہ سے پھٹ سکتا ہے تو ایک عام گاڑی کے ٹائر کیا، اس کی سسپنشن وغیرہ کو بھی خطرہ ہے۔ عام آدمی کے لیے موجودہ معاشی حالات میں چھوٹا سا خرچہ بھی بہت زیادہ ہے اور مالی نقصان سے زیادہ جانی نقصان کا بھی خدشہ ہے۔
ان کیٹ آئیز کے خلاف پہلے بھی مہم چل چکی ہے لیکن ٹریفک پولیس ہمیشہ ایک ہی توجیہہ پیش کرتی ہے کہ ٹائر تو دوبارہ بھی ڈالا جا سکتا ہے لیکن جان نہیں، لیکن کیا اس کے لیے کیٹ آئیز ضروری ہیں؟
کیوں نہ ایسی جگہوں پر ’رفتار آہستہ کریں‘ کا سائن بورڈ لگا دیا جائے۔ کیٹ آئیز سے بچنے کے لیے گاڑیاں ہارڈ شولڈر پر چلتی ہیں، جو اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے کیونکہ کئی بار تو آخری وقت میں ڈرائیور کو یا تو یاد آتا ہے کہ آگے کیٹ آئیز ہیں یا وہ دیکھتا بہت دیر سے ہے اور بچنے کے لیے یا تو بریک مارتا ہے یا پھر فوری لین چینج کر کے ہارڈ شولڈر پر چڑھتا ہے، جس سے حادثہ ہونے کے امکانات بہت بڑھ ہو جاتے ہیں۔
ٹریفک پولیس کو ان نقصان دہ کیٹ آئیز کی بجائے ٹریفک قوانین کی پاسداری میں سختی برتنی چاہیے، جس سے حادثات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔