پنجاب: جیلوں کی بیرکس میں کیمرے لگانے کا منصوبہ، ماہرین معترض

پنجاب کی تمام جیلوں کی بیرکس میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کے فیصلے پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرکس کے باہر کیمرے لگائے جا سکتے ہیں لیکن اندر نہیں۔

31 جنوری، 2024 کی اس تصویر میں پولیس اہلکار اڈیالہ جیل کے دروازے پر تعینات ہیں (اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات نے اعلان کیا ہے صوبے کی تمام جیلوں میں بیرکس کی 24 گھنٹے نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے۔

آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر کے مطابق ’لاہور سمیت پنجاب بھر کی جیلوں کی بیرکس میں 4500 کے قریب کیمرے لگائے جائیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ کیمروں کی تنصیب تین مراحل میں مکمل کی جائے گی۔ ’پہلے مرحلے میں سینٹرل اور ہائی سکیورٹی جیلوں میں کیمرے نصب کیے جائیں گے جبکہ ہر بیرک میں نگرانی کے لیے ایک کیمرہ نصب کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ قیدیوں کے تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین اس پیش رفت پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی تنظیم لیگل ایڈ سوسائٹی کی ایڈووکیٹ ہما نایاب کے بقول ’آئین کے آرٹیکل 18 میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ قیدی ہوں یا آزاد شہری پرائیویسی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

’جیلوں میں سکیورٹی کے لیے بیرکس کے باہر تو کیمرے لگائے جا سکتے ہیں لیکن بیرکس کے اندر کیمروں کی تنصیب سے قیدیوں کی رازداری کا بنیادی حق سلب ہونے کا خدشہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پریزنز ایکٹ 1894اور 1900 میں بھی قیدیوں کو پرائیویسی کا حق دیا گیا ہے۔

بیرکس میں کیمروں کی ضرورت کیوں؟

آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’اس اقدام سے بیرکس کی بہتر نگرانی ممکن ہو گی اور قیدیوں کی نقل و حرکت، بیماری کی صورت میں ہسپتال منتقلی کے اوقات اور بیرکس میں سامان کی چوری کی شکایات کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔

’کیمروں کی تنصیب کے لیے سمری حکومت کو ارسال کر دی گئی ہے۔ سمری کی منظوری کے بعد ٹینڈرنگ کا عمل شروع کر دیا جائے گا اور پھر عمل درآمد کا آغاز ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان محکمہ جیل خانہ جات پنجاب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمہ جیل خانہ جات کی طرف سے حکومت پنجاب کو بھجوائی گئی سمری میں اس کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں، جس کے مطابق بیرکس میں کیمرے لگانے سے کسی بھی قیدی کے بیمار ہونے کی صورت میں انتظامیہ کو فوری معلوم ہوجائے گا۔

’اسی طرح اگر کوئی قیدی خود کشی کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھی فوری بچایا جا سکے گا۔ بیرکس میں منشیات کی خریدو فروخت کی شکایات رہتی ہیں کیمروں سے منشیات کی خرید وفروخت یا استعمال پر نظر رکھی جا سکے گی۔

’اسی طرح لڑائی جھگڑے کی شکایات ملتی رہتی ہیں۔ کیمروں کی ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ایسے واقعات میں ذمہ داروں کا تعین بھی ممکن ہوسکے گا۔ جب قیدیوں کو علم ہوگا کہ بیرکس میں کیمرے نصب ہیں تو ہر قیدی ممنوعہ سرگرمیوں سے باز رہے گا۔‘

ماہر قانون فیصل باجوہ ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں جس طرح عام شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں اسی طرح آئین قیدیوں کے بھی بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

’یہ بات درست ہے کہ جیل حکام کو نظام بہتر رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا پڑتا ہے، مگر بیرکس کے اندر کیمروں کی تنصیب سے قیدیوں کی رازداری کا حق سلب ہوگا۔‘

فیصل باجوہ کے بقول، ’اگر کسی قیدی کی جانب سے جیل حکام کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے تو عدالت جیل انتظامیہ کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیدیوں کے آئینی حق کو بھی تسلیم کرے گی۔

’جیل انتظامیہ بیرکس کے باہر جیسے چاہے نگرانی کا نظام بنا سکتی ہے مگر قیدیوں کے بیرکس میں جانے کے بعد باہر موجود سکیورٹی پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جیلوں میں خواتین بھی قید ہیں ان سے متعلق تو ایسی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی بیرکس میں بھی کیمرے نصب کیے جائیں۔ قیدیوں نے کپڑے بھی بیرکس میں ہی تبدیل کرنے ہوتے ہیں اس حوالے سے احساس تحفظ بھی نہیں ہوگا تو بدنظمی کا خدشہ بڑھے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان