اب گانا سننے کی نہیں بلکہ دیکھنے کی چیز بن گیا ہے۔ یہ شکوہ لتا منگیشکر کو رہا جس کا اظہار انہوں نے کئی بار کیا۔
باریک بینی سے جائزہ لیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ وہ انڈین فلم نگری جہاں ایک سے بڑھ کر ایک مدھر اور رسیلے گانوں کی بہاریں آتی تھیں، جہاں کئی ایسی تخلیقات ہیں جو صرف اپنے گانوں کی وجہ سے سینیما گھروں میں فلم بینوں کو کھینچ کر لائیں۔
جہاں کے گیت فلموں کی نہیں بلکہ اداکاروں، نغمہ نگاروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کی پہچان بنے، اب اسی انڈین فلم نگری میں بس خانہ پری کے لیے گیت شامل کیے جاتے ہیں۔
عالم یہ ہے کہ اب فلموں سے دھیرے دھیرے گانوں کو دیس نکالا دیا جا رہا ہے۔
کہاں کسی فلم کے کم و بیش سارے ہی گیت مقبولیت کی سرحدوں کو پار کرتے تھے اور اب یہ ہو گیا ہے کہ کسی فلم کا ایک ہی گانا بڑی مشکل سے محض اس لیے شہرت حاصل کرتا ہے کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہوتا ہے یا پھر اس کی میمز بنائی جا چکی ہوتی ہیں۔
ذہن پر زور دے کر گذشتہ دس برس کی انڈین فلموں کے گانوں کی ایک فہرست بنائیں توممکن ہے کہ دس بارہ گانوں کے بعد آپ مزید کو یاد کرنے کے لیے ہمت ہار جائیں۔
موسیقاروں نے آلات موسیقی کی بھاری بھرکم مشینیں تو رکھ لی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس پائے کے گیت پیش نہیں کر پا رہے جو بالی وڈ فلموں کا خاصا تھے۔
ادت نرائن ہوں، کمار سانو، الکا یاگنگ یا کوئی اور، ہر اس گلوکار کے گانوں کو بڑے پیمانے پر ری مکس کیا جا رہا ہے جو کسی زمانے میں شہرت کے ہر پائیدان کو پار کر چکے تھے۔
حال ہی میں کرینا کپور، تبو اور کریتی سنن کی فلم ’کریو‘ میں جب ’چولی کے پیچھے کیا ہے‘ کو ری مکس کر کے شامل کیا گیا تو اس گیت میں گلوکاری الکا یاگنگ کا ساتھ دینے والی الا ارون کا پارہ چڑھ گیا۔
الا ارون کا کہنا تھا کہ انہیں اس ری مکس کو سن کر سخت مایوسی ہوئی اور افسوس اس بات کا ہوا کہ ان کے علم میں لائے بغیر اس گیت کو ری مکس کیا گیا ہے۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اسی فلم میں الا ارون کو اپنے مشہور گیت ’دلی شہر میں گھاگرا‘ کے ری مکس ہونے پر بھی شدید اعتراض تھا۔
ادھر ان گیتوں کو ری مکس کرنے والے موسیقاروں نے اپنے اوپر ہونے والی اس تنقید سے بچنے کے لیے سارا ملبہ میوزک کمپنی پر ڈال دیا کہ انہیں چاہیے تھا کہ الا ارون کے علم میں یہ بات لاتے۔
یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بیشتر پرانے گانوں کے حقوق میوزک کمپنیوں کے پاس ہوتے ہیں اور جب وہ کسی نئی فلم کے موسیقی کے حقوق خریدتے ہیں تو اپنے ہی پرانے گانوں کو بطور خاص یا فرمائش ری مکس کراتے ہیں۔
میوزک کمپنیوں کا موقف یہی ہوتا ہے کہ یہ گانے ان کی ملکیت ہیں اور اب وہ اس کے ساتھ جو بھی سلوک کریں کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
بسا اوقات یہ حقوق بڑے پروڈکشن ہاؤسز کے پاس ہوتے ہیں جو جب نئی فلم بناتے ہیں تو اپنی ہی پرانی فلم کے کسی گیت کو ری مکس کر کے فلم کا حصہ بناتے ہیں۔
گلوکار الکا یاگنک کے سب سے زیادہ گانے ری مکس کیے جاتے ہیں اور وہ اپنے ہر گیت کے ساتھ ہونے والے اس سلوک پر سخت ردعمل دیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ ’اس سارے معاملے پر کئی بار آواز اٹھا کر اب تو بیزار ہی ہو چکی ہیں۔ تمام سدا بہار اور مقبول گانوں کے ساتھ ری مکس کے نام پر چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے اور ان مدھر اور رسیلے گانوں کو برباد کیا جا رہا ہے۔
’فلموں میں ان گانوں کو ری مکس اس لیے بھی کیا جا رہا ہے تاکہ یہ نائٹ کلب میں بجائے جائیں جن کی بےہنگم موسیقی پر نوجوان رقص کریں۔‘
الکا یاگنک نے کئی بار درخواست کی ہے کہ موجودہ دور کے موسیقار اچھی دھنیں تو بنا نہیں پاتے، کم ازکم پرانے موسیقاروں کے گانوں کو بخش دیں۔
آشا بھوسلے کے کئی پرانے اور شہرت یافتہ گانوں پر بھی موسیقاروں نے ہاتھ صاف کیا ہے۔
گذشتہ سال جب فلم ’روکی اور رانی کی پریم کہانی‘ میں آشا بھونسلے کے گانے ’جھمکا گرے رے‘ کو ری مکس کیا گیا تو ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آشا بھوسلے کا بھی یہی موقف تھا کہ اگر موسیقار یا گلوکار کچھ جدت لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پرانے گانوں پر رحم کریں۔
آشا کے مطابق دور حاضر کے موسیقار یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی گانے کی تیاری میں موسیقار، گلوکار اور نغمہ نگار کو کس قدر محنت کرنی پڑتی تھی۔
ایک ایک لفظ پر بحث ہوتی، موسیقار اور نغمہ نگار کے درمیان تکرار ہوتی اور پھر جا کر کوئی گیت حتمی صورت اختیار کرتا۔ لیکن اب موسیقار آنکھ بند کر ان گانوں کے ساتھ وہ ظلم کرتے ہیں جس پر افسوس ہی ہوتا ہے۔
دوسری جانب ایک حلقہ وہ بھی ہے جو ری مکس گیتوں کا دفاع کر رہا ہے۔ حال ہی میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’بیڈ نیوز‘ میں ادت نرائن کی آواز میں گائے گیت ’میرے محبوب میرے صنم‘ کو ری مکس کرکے شامل کیا گیا۔
اصل گانے کو بنانے والے موسیقار انو ملک کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ گیت تیار کیا تھا تو سٹوڈیو میں ہر کوئی تالیاں بجا رہا تھا اور لہک لہک کر گا رہا تھا۔
اب لگ بھگ 26 سال کے طویل عرصے کے بعد اسی گیت کو ایک نئے انداز میں سن کر فرحت بخش احساس ہوا۔
کچھ ایسا ہی خیال گلوکار شان کا ہے جن کے کئی گانوں کو ری مکس کیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر دور میں ہر شعبے میں نیا پن آتا ہے۔ ایک نسل پرانی ہوتی ہے تو دوسری کھڑی ہوتی ہے۔
اب ان کے جو تقاضے ہوتے ہیں جو انداز اور جو ضرورت ہوتی ہے اس کے مطابق گیتوں میں بھی تبدیلی لائی جاتی ہے۔ پھر میوزک کمپنیوں کے بھی کاروباری مقاصد ہوتے ہیں اور جب ان کے پاس گیت کے حقوق ہیں تو وہ کاروباری فائدے کے لیے ہر قدم اٹھاتے ہیں۔
بہرحال سنجیدہ تجزیہ کار یہی کہتے ہیں کہ انڈین فلموں میں کہانیوں کا پہلے ہی قحط پڑا ہے جبھی جنوبی انڈیا کی فلم نگری سبقت لے گئی ہے۔
ایسے میں بالی وڈ فلموں میں پرانے سدا بہار گانوں کو ری مکس کر کے اس بات کی تصدیق کی جا رہی ہے کہ اب تخلیقی کام نہیں ہو رہا۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔