روس کے انڈیا کو آفر کیے گئے سٹیلتھ Su-57 طیارے میں کیا خاص ہے؟

روس نے انڈیا میں اپنے جدید ترین ففتھ جنریشن کے سٹیلتھ جنگی طیارے سخوئی Su-57 کی نمائش کے بعد انڈین ایئرفورس کے بیڑے کو مضبوط بنانے کے لیے اس کی تیاری کی پیشکش کی ہے۔

 11 فروری، 2025 کو بینگلورو میں 'ایرو انڈیا 2025' شو کے دوران ایک روسی سخوئی Su-57 لڑاکا طیارے کی نمائش کی جا رہی ہے (اے ایف پی)

روس نے بینگلورو میں جاری ’ایرو انڈیا ایئر شو 2025‘ میں اپنے جدید ترین ففتھ جنریشن کے سٹیلتھ جنگی طیارے سخوئی Su-57 کی نمائش کے بعد انڈین ایئرفورس کے بیڑے کو مضبوط بنانے کے لیے اس کی انڈیا میں تیاری کی پیشکش کی ہے۔

روسی سرکاری اسلحہ برآمد کنندہ ’روسو بورون ایکسپورٹ‘ کے ترجمان نے ایئر شو کے موقع پر کہا کہ اگر انڈین حکومت اس پیشکش کو قبول کر لیتی ہے تو یہ لڑاکا طیارہ اسی سال پروڈکشن مرحلے میں جا سکتا ہے۔

ہر دو سال بعد منعقد ہونے والے شو میں Su-57 کو امریکہ کے جدید ترین ففتھ جنریشن کے F-35 سٹیلتھ فائٹر جیٹ کے ساتھ پیش کیا گیا جہاں دونوں طیاروں نے فضائی مظاہرہ بھی کیا۔

اپنے دہائیوں پر محیط دفاعی شراکت دار کو متاثر کرنے کے لیے روسی طیارے نے سخوئی کے چیف ٹیسٹ پائلٹ سرگئی بوگدان کی قیادت میں حیران کن کرتب دکھائے جہاں یہ طیارہ 600 میٹر کی بلندی پر معلق رہا اور 120 ڈگری کے زاویے پر حملے کے انداز میں فضا میں معلق ہونے کی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔

سرگئی بوگدان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ انتہائی وزنی طیارے کو آسمان میں رقص کروانے جیسا ہے۔‘

انڈین ایئرفورس کے پاس پہلے ہی روسی ساختہ  سخوئی Su-30 کے 260 طیارے موجود ہیں۔

Su-57 طیارے میں کیا خاص ہے؟

’پکسلیٹڈ‘ کیموفلاج کلر سکیم میں ڈیزائن کیے گئے اس سخوئی فائٹر جیٹ میں ہلکے اور گہرے سرمئی رنگوں کے ساتھ سیاہ پکسلز شامل ہیں جو اس کی سٹیلتھ خصوصیات میں اضافہ کرتے ہیں۔

سرگئی کے مطابق Su-57  نہ صرف روس کا پہلا ففتھ جنریشن لڑاکا طیارہ ہے جو حقیقی جنگ میں حصہ لے سکتا ہے بلکہ اس میں جدیدیت کی کوئی حد مقرر نہیں۔

یہ طیارہ سٹیلتھ ڈیزائن پر مبنی ہے جو اسے ریڈار سسٹمز سے پوشیدہ رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس میں میزائل اور بم لے جانے کے لیے کارگو کمپارٹمنٹس موجود ہیں اور اس کا آن بورڈ دفاعی نظام بھی انتہائی جدید ہے۔

اس کے اندرونی ویپن بے پائلٹ کو طویل فاصلے اور قریبی جنگ کے لیے مختلف اقسام کے میزائل منتخب کرنے کی آزادی دیتی ہے۔

سرگئی کا کہنا ہے کہ اس طیارے کی چُستی اور فضائی کرتب کی صلاحیت اسے امریکی F-35 کے مقابلے میں برتری فراہم کر سکتی ہے۔

طیارے کی صلاحیتں کتنی حقیقی ہیں؟

اس طیارے کی سیریل پروڈکشن 2022 میں شروع ہو چکی تھی، تاہم دفاعی ماہرین اس کی صلاحیتوں پر شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اگرچہ Su-57 کو روسی ففتھ جنریشن کا لڑاکا طیارہ قرار دیا جاتا ہے جو اپنے امریکی ہم منصب کا مقابلہ کر سکتا ہے، لیکن یہ طیارہ ترقیاتی تاخیر اور 2019 میں ایک حادثے کا شکار رہا۔

دسمبر 2019 میں ایک Su-57 طیارہ مشرقی روس میں ٹیسٹ پرواز کے دوران گر کر تباہ ہو گیا تھا جو اس جدید طیارے سے جڑے اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ تھا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ حادثے کی وجہ سٹیئرنگ سسٹم کی خرابی تھی، جس سے روس کی اس طیارے کو اپنے اتحایوں کو فروخت کی کوششوں کو نقصان پہنچا جب کہ یہ حادثہ اس سال روسی فضائیہ کو طیارے کی حوالگی میں تاخیر کا سبب بھی بنا۔

2023 میں برطانوی وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق روس کا Su-57 طیارہ جنگی استعمال کے لحاظ سے محدود صلاحیت رکھتا ہے اور ماسکو نے اب تک اس کا جنگ میں محتاط استعمال کیا ہے۔

اس طیارے میں دلچسپی رکھنے والے ممکنہ خریداروں میں شمالی کوریا، ایران اور الجزائر شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر انڈیا روس کے ساتھ اس طیارے کے حوالے سے معاہدہ کرتا ہے تو یہ ماسکو کے لیے دفاعی صنعت کو سہارا دینے کا ایک بڑا موقع ہوگا جو یوکرین جنگ کی وجہ سے مغربی پابندیوں اور سپلائی چین کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔

روسو بورون ایکسپورٹ کے ایک عہدے دار کے مطابق روس انڈیا کو ففتھ جنریشن کی ٹیکنالوجی فراہم کرے گا جن میں جدید انجن اے ای ایس اے ریڈار، آپٹکس، منصوعی ذہانت، سافٹ ویئر کمیونیکیشن اور فضائی ہتھیار شامل ہیں۔

دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے درآمد کنندہ انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فوج کو جدید بنانے اور جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ملکی سطح پر دفاعی پیداوار میں اضافے پر زور دے رہا ہے۔

تاہم گذشتہ چند ایئر شوز میں انڈیا کسی بڑے دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہا ہے۔ ایسے میں روس Su-57 کی پیشکش کے ذریعے یہ خلا پُر کر سکتا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی