چائے اور زیتون ہزارہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں

حکومتِ پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے ہزارہ میں چائے کی کاشت کو فروغ دینے میں سرگرم ہے، مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔

شاہراہِ ریشم پر واقع ہزارہ ڈویژن کا کُل رقبہ 17064 مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی 61 لاکھ 88 ہزار 736 افراد پر مشتمل ہے۔

موسمی اعتبار سے یہ علاقہ چائے اور زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہے۔ 1982میں پاکستان اور چین کے زرعی ماہرین نے ایک سروے کیا تھا، جس کا مقصد جائزہ لینا تھا کہ کون کون سے علاقے چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔

اس میں جو علاقے سامنے آئے ان میں ہزارہ کا علاقہ پہلے نمبر پر تھا، جس کی وجہ سے حکومتِ پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے یہاں چائے کی کاشت کو فروغ دینے میں سرگرم ہے، مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔

پاکستان سالانہ کتنی مالیت کی چائے درآمد کرتا ہے؟

دنیا میں چائے کی پیداوار کی سالانہ مالیت 122.2 ارب ڈالر ہے، جو 2028 تک بڑھ کر 160ارب ڈالر ہو جائے گی۔

اس میں چین 24 لاکھ ٹن کے ساتھ پہلے، انڈیا نو لاکھ ٹن کے ساتھ دوسرے اور کینیا تین لاکھ پانچ ہزار ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، پھر سری لنکا، ترکی اور انڈونیشیا کا نمبر آتا ہے۔

2022 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان سالانہ 707 ملین ڈالر کی درآمد کے ساتھ پہلے، امریکہ 522 ملین ڈالر کے ساتھ دوسرے اور متحدہ عرب امارات 388 ملین ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

چائے کی پیداوار صدیوں پہلے چین میں شروع ہوئی تھی، جو آج بھی 38 فیصد کے ساتھ چائے کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔

تقریباً 200 سال پہلے ہندوستان میں چائے کی کاشت نہیں ہوتی تھی مگر آج وہ نہ صرف چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے بلکہ چائے کی پوری دنیا کی پیداوار کا 23 فیصد پیدا کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ انڈیا 200 سال میں چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر کیوں اور کیسے آیا اور پاکستان جو 78 سال پہلے ہندوستان کا ہی حصہ تھا وہ چائے کی پیداوار میں نہ صرف پیچھے ہے بلکہ دنیا میں چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بھی ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی 1820 میں چین سے ایک جاسوسی مشن کے ذریعے پودے چرا کر ہندوستان لائی، جن کو آسام اور دارجیلنگ میں کاشت کیا گیا۔

تب ہزارہ کے علاقے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملکیت میں تھے، وگرنہ شاید ایسٹ انڈیا کمپنی ہزارہ کو بھی موزوں خیال کرتے ہوئے یہاں چائے کاشت کرتی اور آج ہزارہ کا معاشی منظر نامہ مختلف ہوتا۔

ہزارہ میں چائے کی کاشت کیوں ناکامی سے دوچار ہے؟

ڈاکٹر بشارت حسین شاہ شنکیاری میں قائم نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اُردو کو بتایا کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد چونکہ چائے کی کاشت کے علاقے اُس طرف رہ گئے تھے اس لیے اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ پاکستان میں چائے کی کاشت شروع کی جائے۔

اس کے پیش نظر 1982 میں چینی ماہرین کا ایک وفد پاکستان آیا جس نے مقامی زرعی ماہرین کے ساتھ مل کر چائے کی کاشت کے لیے موزوں علاقوں کی نشاندہی کی۔

اس وقت انہوں نے 158,000 ہزار ایکٹر رقبے کی نشاندہی کی جس میں ضلع مانسہرہ، بٹ گرام، سوات، دیر کے اضلاع کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ علاقے شامل تھے۔

اس کے پیش ِنظر پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے 1986 میں یہاں نیشنل ٹی ریسرچ سٹیشن قائم کیا، جس کا مقصد چائے کی کاشت کو کامیاب بنانا تھا۔

اس کے دو سال بعد یونی لیور نے بھی یہاں اپنا تحقیقی مرکز بنایا اور کام شروع کر دیا۔

ڈاکٹر بشارت نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ہم نے617 ایکڑ پر چائے کاشت کی۔ یونی لیور نے ہم سے زائد رقبے تقریباً 1100 ایکڑ پر چائے کے باغات لگائے۔ 1996 میں ٹی ریسرچ سٹیشن کو اپ گریڈ کر کے انسٹی ٹیوٹ کا درجہ دیا گیا۔

حکومتی کوششوں کو لگ بھگ 38 سال ہو چکے ہیں مگر ہزارہ میں چائے کی کاشت کیوں فروغ نہیں پا سکی؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر بشارت نے بتایا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں بہت چھوٹا کاشت کار ہے جس کے پاس اوسطاً 10 کنال زمین ہے جس میں وہ سال میں تین فصلیں کاشت کرتا ہے۔

اسے اس کے دام بھی فوراً وصول ہو جاتے ہیں جبکہ چائے کے پودے کو فصل دینے میں پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ چھوٹے کاشت کار کے لیے اتنا عرصہ انتظار کرنا مشکل ہے۔

وہ ہمیں زمین دینے کے لیے تیار ہے لیکن خود کاشت کے لیے تیار نہیں۔ جن کسانوں نے چائے کاشت کی انہیں یہ زیادہ سود مند فصل نہیں لگی حالانکہ آج کی مارکیٹ میں سبز یا کالی چائے کی قیمت دو ہزار روپے کلو سے زیادہ ہے۔

مگر کسان سے جس قیمت پر ملٹی نیشنل کمپنیاں چائے خرید رہی ہیں وہ 60 روپے کلو ہے۔ پانچ کلو پتوں سے ایک کلو چائے نکلتی ہے۔

گویا 300 روپے فی کلو خرید کر اسے دو ہزار روپے سے زیادہ میں مارکیٹ کیا جاتا ہے، جو کسان سے سراسر ناانصافی ہے۔ میں ہر فورم پر یہی بات کرتا ہوں کہ چائے کی کاشت کاری کے تین درجے ہیں۔ پہلا کاشت، دوسرا پراسیسنگ اور پھر مارکیٹنگ ہے۔

جب تک چائے کی فی کلو مارکیٹ ویلیو کا 40 فیصد کسان کو نہیں ملے گا چائے کی کاشت پر کسان راغب نہیں ہو گا۔

اگر اس فارمولے پر عمل کر دیا جائے تو جو اہداف ہم سالوں اور دہائیوں میں حاصل نہیں کر سکے وہ مہینوں میں حاصل ہو جائیں گے کیونکہ اس سے کسان کا منافع روایتی فصلوں سے تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ جائے گا۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس مقصد کے لیے ٹی بورڈ بنایا جائے جو کسان سے چائے خریدنے کی قیمتوں کا تعین کرے۔ ایک بار جب آپ کا چائے کا باغ لگ جاتا ہے اور وہ پیداوار دینا شروع کر دیتا ہے تو ایک ایکڑ سے3500 کلو پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔

کسان کو بار بار کاشت پر بھی رقم صرف نہیں کرنی پڑتی۔ ایک چائے کا پودا 80 سے 100سال تک پیداوار دیتا رہتا ہے۔ اس کے لیے صرف آپ کو پانی اور کھاد دینی پڑتی ہے۔

ہمارے ادارے کے پاس کالی چائے کا پراسیسنگ پلانٹ بھی ہے جو 2001 سے کام کر رہا ہے۔ 2018 میں ترکی نے ہمیں مکمل آٹو میٹک پلانٹ تحفے میں دیا جو روزانہ 500 کلوگرام چائے پراسیس کر سکتا ہے۔

2005 سے ہمارے پاس سبز چائے کی پراسیسنگ کی سہولت بھی ہے۔ ہمارے باغات کی سبز چائے دنیا میں تیسرے نمبر پر اعلیٰ ترین مانی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر بشارت نے بتایا کہ چینی ماہرین کے بعد حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او نے ایک اور سروے کیا جس میں ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ پاکستان میں نو لاکھ ایکڑ رقبہ چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔

اگر ہم صرف تین لاکھ ایکڑ پر چائے کاشت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم چائے کے درآمدی بل میں 75 فیصد تک کمی کر سکتے ہیں۔

چائے کی کاشت کا بہت بڑا علاقہ ایسا بھی ہے جو محکمہ جنگلات کی ملکیت ہے۔ محکمے والوں کے پاس چائے کی کاشت کا میکنزم نہیں، اس سلسلے میں حکومت جنگلات کے وہ علاقے جہاں چائے کی کاشت ہو سکتی ہے وہ کسانوں کو لیز پر دے۔

زیتون بھی ہزارہ کے لیے سونا ثابت ہو سکتا ہے

پاکستان تقریباً سالانہ چار ارب ڈالر کی خطیر رقم کھانے کے تیل کی درآمد پر صرف کرتا ہے۔

پاکستان میں حالیہ سالوں میں پانچ کروڑ 60 لاکھ زیتون کے پودے لگائے جا چکے ہیں جبکہ یہاں پر ساڑھے آٹھ کروڑ جنگلی زیتون کے پودے موجود ہیں جن کی پیوند کاری سے زیتون کا پھل حاصل کیا جا سکتا ہے۔

این ٹی ایچ آر آئی کے سینیئر ڈائریکٹر بشارت حسین شاہ نے انڈپینڈنٹ اُردو کو بتایا کہ پچھلے 10 سالوں میں ہزارہ میں تقریباً اڑھائی ہزار ایکڑ پر زیتون کے پودے لگائے گئے۔

کسانوں کے لیے زیتون لگانا زیادہ آسان ہے۔ اس کے لیے ٹھنڈے علاقے زیادہ موزوں ہیں۔ عام نرسری میں جو پودا 300 سے 500 میں ملتا ہے ہم اسے 93 روپے میں کسان کو دے رہے ہیں۔

پھل اتارنے کی کٹ جس کی مارکیٹ میں قیمت ایک لاکھ 10 ہزار روپے ہے وہ ہم آدھی قیمت پر کسان کو دے رہے ہیں۔ یہ پیسے بھی اس لیے لیتے ہیں تاکہ وہ اسے مفت سمجھ کر برباد نہ کریں بلکہ اس کی حفاظت کریں۔

زیتون کا پودا تین سال میں پھل دینا شروع کر دیتا ہے۔ ایک پودے سے آپ 20 کلو تک پھل لے سکتے ہیں۔ پانچ کلو پھل سے ایک لیٹر تیل نکلتا ہے ،یعنی ایک پودے سے چار لیٹر تیل نکلتا ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت 16 ہزار روپے بنتی ہے۔

ایک ایکٹر میں 135 پودے لگتے ہیں یعنی ایک ایکڑ سے آپ 540 لیٹر زیتون کا تیل لے سکتے ہیں۔ گویا ایک ایکڑ سے آپ 21 لاکھ 60 ہزار روپے سالانہ کما سکتے ہیں۔

اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اس کو زرعی زمین کے علاوہ پہاڑی اور پتھریلی زمین پر بھی لگا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس زیتون کے پھل سے تیل نکالنے کا پلانٹ بھی ہے جس کی پیداواری صلاحیت 100 کلو گرام فی گھنٹہ ہے۔

اس سے پہلے کسانوں کو تیل نکلوانے کے لیے پشاور، چکوال یا راول پنڈی جانا پڑتا تھا۔ ہم نے شنکیاری میں 11 ہزار جنگلی زیتون کے پودوں کی پیوند کاری بھی کی ہے، جس کے نتائج اگلے ایک دو سالوں میں آنا شروع ہو جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق