کراچی پولیس نے ہفتے کو بتایا ہے کہ سات جنوری کو نارتھ کراچی سے لاپتہ ہونے والے سات سالہ صارم محسن کی لاش زیر زمین پانی کی ٹینکی سے برآمد کر لی گئی ہے۔
لاش کی برآمدگی کے بعد عباسی شہید ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا، جس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ’بچے کے جسم پر زخموں کے متعدد نشانات پائے گئے۔‘
پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید طارق کی جانب سے جاری کی گئی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق: ’جسم کے دیگر حصوں سے نمونے جمع کر لیے گئے ہیں، مگر موت کی حتمی وجہ مکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد بتائی جا سکے گی۔‘
نارتھ کراچی سیکٹر ’فائیو کے‘ میں واقع ایک رہائشی اپارٹمنٹ بیت النعم کے رہائشی محسن پرویز نے رواں ماہ آٹھ جنوری کی رات اپنے سات سالہ بیٹے صارم کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا گیا کہ صارم کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر اغوا کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی سینٹرل پولیس کے ترجمان وقار علی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بچے کے اغوا کے مقدمے کے بعد پولیس نے دیگر مقامات کے ساتھ اسی عمارت کی پانی کی ٹینکی کو دو بار چیک کیا، مگر اس وقت لاش نظر نہیں آئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ لاش اوپر آکر تیرنے لگی اور ٹنکی سے بدبو آنے پر اہل محلہ نے پولیس کو اطلاع دی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پانی کے ٹینک پر ڈھکن کی جگہ گتے کا ٹکڑا رکھا ہوا تھا۔ بچہ حادثاتی طور پر گرا یا کسی نے اسے پھینکا یا کسی نے کسی اور جگہ قتل کر کے لاش کو ٹینکی میں پھینکا، ان تمام پہلوؤں پر تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
پولیس ترجمان وقار علی کا کہنا تھا کہ ’بچے کی لاش ان کپڑوں میں ملی، جو گمشدگی سے قبل اس نے پہنے ہوئے تھے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے بعد تفصیلی تحقیقات کرکے پتہ لگایا جائے گا کہ یہ ایک حادثہ تھا یا بچے کو کسی نے قتل کیا۔‘
بچے کی لاش کو پولیس کارروائی کے بعد عباسی شہید ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں سے ایدھی فاؤنڈیشن کے رضا کار عظیم خان کے مطابق پوسٹ مارٹم کے بعد لاش کو ایدھی ہوم سہراب گوٹھ سرد خانے منتقل کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق سات سالہ صارم کے والد کی جانب سے اغوا کا مقدمہ دائر ہونے کے بعد والد کومختلف نمبروں سے تاوان کے پیغامات بھی موصول ہوئے۔
صارم کے والد محسن پرویز نے مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان سے ایک وٹس ایپ پیغام کے ذریعے پانچ لاکھ روپے بطور تاوان مانگے گئے تھے اور رقم نہ دینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
محسن پرویز کے مطابق وٹس ایپ پیغام میں تاوان کی رقم بھیجنے کے لیے بین الاقوامی بینک اکاؤنٹ نمبر دیا گیا تھا۔
جب پولیس نے چھان بین کی تو جن نمبروں سے تاوان کے پیغامات بھیجے گئے تھے، ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔
پولیس کے مطابق مقدمے کے بعد سوشل میڈیا سے بچے کے والد کا نمبر لے کر تاوان مانگا گیا تھا۔
صارم کی والدہ شہلا کے مطابق ان کا بیٹا مدرسے سے واپس آتے ہوئے لاپتہ ہوا تھا۔
ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’میرے دونوں بیٹے دوپہر میں گھر کے قریب مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ دونوں عام طور پر پونے چار بجے تک واپس آجاتے ہیں۔ اس دن ایک بیٹا واپس آیا مگر صارم نہیں آیا۔ بیٹے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ مدرسے سے دونوں ساتھ نکلے مگر صارم دوسرے راستے پر گھوم کر چلا گیا۔
’محلے والوں اور چوکیدار سے پوچھا مگر صارم کا پتہ نہیں لگا، تو میں نے اپنے شوہر کو فون کیا۔ میرے شوہر نے مدرسے کے قاری سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ صارم تو وقت پر گھر چلا گیا تھا۔ ہم نے صارم کو بہت تلاش کیا، آج لاش ملی۔‘
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے صارم حسین کی گمشدگی کے بعد ان کے گھر آ کر والدین سے ملاقات میں انہیں بچے کی بحفاظت بازیابی کے لیے اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔
گورنر سندھ نے متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کی تھیں کہ وہ صارم کو جلد بازیاب کروائیں۔
کراچی پولیس کے مطابق جنوری کے پہلے 16 دنوں میں تین بچوں کی گمشدگی کے مقدمات رپورٹ ہوئے ہیں۔