’غریبوں کے برگر‘ وڑا پاؤ کا بمبئی سے پشاور تک کا سفر

پشاور کے مہر علی نے پہلی مرتبہ اس قدیم شہر میں مشہور انڈین برگر کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے قریب حیات آباد کی فوڈ سٹریٹ میں ایک چھوٹے سے سٹال پر نوجوان تیزی سے مخصوص برگر تیار کر رہا ہے، جب کہ قریب میں لگی کرسیوں پر گاہک کھانے کے منتظر ہیں۔

سٹال کے بورڈ پر رومن VadaPav ایسے لکھا گیا ہے جیسے ہندی رسم الخط ہو، جسے پڑھ کر میں نے نوجوان سے پہلا سوال اسی حوالے سے کیا۔

اس پر نوجوان نے جواب دیا: ’لکھا انگریزی میں ہے لیکن دور سے لگتا ہے جیسے ہندی رسم الخط میں لکھا ہو۔‘  

یہ سٹال پیشے کے اعتبار سے بینکر مہر علی نے، جو فوڈ وی لاگر بھی ہیں، دو ماہ قبل قائم کیا تھا، جہاں ان کے دو ملازم ’وڑا پاؤ‘ برگر فروخت کرتے ہیں۔

وڑا پاؤ کیا ہے؟

ہندی زبان میں ’وڑا‘ آلو اور ’پاؤ‘ بریڈ یا بن کو کہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں وڑا پاؤ سے مراد ’آلو برگر‘ ہے اور اس سٹریٹ فوڈ کے ساتھ انڈیا کی تقریباً 55 سالہ تاریخ جڑی ہوئی ہے۔

وڑا پاؤ کو انڈیا میں ’بمبئی یا انڈین برگر‘ اور عام طور پر ’غریبوں کا برگر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان ناموں کی بنیادی وجہ وڑا پاؤ کا سستا ہونا ہے۔ 

پشاور میں وڑا پاؤ متعارف کرانے والے مہر علی نے آلو اور بن کے ساتھ پنیر اور مرغی کا گوشت بھی شامل کیا ہے۔ 

اس کی وضاحت انہوں نے کچھ یوں کی: ’انڈیا میں وڑا پاؤ ویجیٹیرینز کی خوراک ہے، لیکن پشاور کے لوگوں کے ٹیسٹ بڈز کے مطابق ہم نے اس میں چیز اور چکن شامل کیے ہیں۔‘  

مہر کے مطابق ’پشاور میں وڑا پاؤ متعارف کرانے کے لیے ان کا پہلا اور بڑا چیلنج مخصوص قسم کے بن کی تلاش تھی۔‘

’پڑوسی ملک انڈیا کے مختلف پکوان ہم یوٹیوب پر دیکھتے ہیں لیکن کسی نے ان میں سے کوئی ڈش پاکستان میں لوگوں کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔

’میں نے پڑوسی ملک کا حق ادا کرتے ہوئے وڑا پاؤ کو یہاں متعارف کیا اور رسپانس بھی بہت اچھا ملا۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وڑا پاؤ کی قیمتیں مناسب رکھی ہیں۔ ’نارمل وڑا پاؤ 150 روپے، چیز والا 200 جبکہ چیز اور چکن کے ساتھ پریمیئم 300 روپے کے ہیں۔‘ 

وڑا پاؤ کی تاریخ

وڑا پاؤ کو ممبئی میں 1960 میں اشوک ویدیا نامی شخص نے پہلی مرتبہ متعارف کروایا تھا۔

70 کی دہائی میں جب انڈیا میں ہڑتالوں کی وجہ سے کپڑے کے کارخانے بند ہوئے تو مزدوروں نے سٹالز پر وڑا پاؤ بیچنا شروع کردیا۔

انٹرنیشنل جرنل آف ایڈوانس ریسرچ ان سائنس، کمیونی کیشن اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع 2022 کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اشوک 1960 میں ڈاڈر ریلوے سٹیشن کے باہر سٹال پر وڑا پاؤ بیچتے تھے۔

مقالے کے مطابق انہوں نے وڑا پاؤ میں عام برگر کے بریڈ کی بجائے نرم گول بن یا بریڈ کا استعمال کیا اور اس کے ساتھ کچھ چٹنیاں بھی دیتے، جس سے وڑا پاؤ مقبول ہوا اور اب اسے عرف عام میں غریبوں کو برگر کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیقی مقالے کے مطابق صرف ممبئی شہر میں روزانہ 20 لاکھ وڑا پاؤ کھائے جاتے ہیں اور مشہور برینڈز میں جمبو کنگ اور گولی وڑا پاؤ شامل ہیں۔

گولی وڑا پاؤ کے انڈیا کی 20 ریاستوں میں 300 سے زائد سٹورز ہیں جبکہ جمبو کنگ کی انڈیا میں 175 سے زیادہ دکانیں ہیں۔

جمبو کنگ نے پہلی مرتبہ وڑا پاؤ کو ‘انڈین برگر’ کا نام دیا تھا۔ پشاور سے پہلے وڑا پاؤ لاہور اور کراچی میں متعارف ہو چکا ہے۔

وڑا پاؤ بنانے کا طریقہ

وڑا پاؤ کے لیے سب سے پہلے وڑا یعنی آلو کو میش کر کے گولے تیار کیے اور ان میں مختلف قسم کے مصالحے شامل کیے جاتے ہیں۔ 

گولوں کو تیل میں ڈیپ فرائی کیا جاتا ہے اور انہیں خاص قسم کے بن میں رکھ کر کچھ ساسز ڈالی جاتی ہیں۔ 

اس کے بعد بن یا بریڈ کو گرم کر کے مختلف چٹنیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا