پاکستان کو دو لخت ہوئے 52 سال ہو چکے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ پر بہت کچھ سامنے ہے اور بہت کچھ ابھی پوشیدہ ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کے مندرجات بھی صرف اتنے جاری کیے گئے جتنی اجازت ملی۔ بہت سے مندرجات پر ابھی تک ’خفیہ‘ کی مہر لگی ہوئی ہے۔
اگر ہم دیکھیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کا پہلا بڑا واقعہ کون سا ہوا تھا تو وہ 23 مارچ 1971 کا دن تھا، جب ڈھاکہ میں سرکاری عمارتوں سے پاکستان کا پرچم اتار کر بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا گیا تھا، جس پر 25 مارچ کو عوامی لیگ پر پابندی عائد کر کے شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا۔
17 اپریل کو مجیب نگر میں ایک تقریب میں بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 10 نومبر کو انڈین افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ چھ دسمبر کو انڈیا بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ اسی روز سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو روس نے ویٹو کر دیا۔
اگلے روز جنرل اسمبلی نے 11 کے مقابلے میں 104 ووٹوں سے جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی مگر جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی حیثیت سب ہی جانتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
جنرل نیازی کو جس پیغام کا انتظار تھا وہ مل گیا
سقوطِ ڈھاکہ سے ایک روز پہلے ڈھاکہ میں کیا ہو رہا تھا، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
وسیم شیخ کی کتاب ’ہتھیار کیوں ڈالے؟‘ میں جنرل نیازی کا ایک طویل انٹرویو دیا گیا ہے اور ساتھ ہی تاریخ وار واقعات بھی درج کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق 15 دسمبر کو پاکستان کے سرکاری ترجمان نے بیان دیا کہ دشمن کی فوجیں ڈھاکہ کے قریب پہنچ گئی ہیں اور شہر کے اطراف میں گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے۔
اسی شام سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اعلان کیا گیا کہ مشرقی پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 08:15 پر صدر مملکت قوم سے خطاب کریں گے۔ نامزد وزیراعظم نورالامین نے راولپنڈی میں کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور قوم اس صورت حال سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے جتنے حصے پبلک کیے گئے ان کے مطابق ہتھیار ڈالنے سے ایک روز پہلے جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی کو ایک پیغام بھیجا: ’میں نے تمہارا بھیجا ہوا پیغام دیکھا ہے اور میں نے آل انڈیا ریڈیو پر یہ بھی سن لیا ہے کہ تم نے بھارتی آرمی چیف جنرل منیکشا کو کیا کہا ہے، میں کہتا ہوں کہ تم اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہو لیکن میری نصیحت یہ ہے کہ تم وہی کرو جو بھارتی افواج کہہ رہی ہے۔‘
حمود الرحمٰن کمیشن میں لکھا ہے کہ اگر جنرل نیازی ڈھاکہ کا دفاع کر سکتے تو وہ ہتھیار نہ ڈالنے کا فیصلہ کر تے۔ جنرل نیازی کے اپنے بقول ان کے پاس 26,400 فوجی تھے جو اگلے دو ہفتوں تک لڑ سکتے تھے۔ دشمن کو بھی ڈھاکہ میں مزید فوجیں اکٹھی کرنے میں ایک ہفتہ لگنا تھا اور اس طرح اسے ڈھاکہ پر قبضہ کرنے میں بھی مزید ایک ہفتہ اور لگ جاتا۔
جنرل نیازی سات دسمبر 1971 کے بعد اپنے اہم محاذ جیسور برہمن باری پر شکست کھانے کے بعد حوصلہ کھو چکے تھے، اس لیے وہ اب صرف ان احکامات کے انتظار میں تھے جو انہیں جنرل یحییٰ کی جانب سے ملنے تھے اور جو بالآخر انہیں 15 دسمبر کو مل گئے۔
سلامتی کونسل میں کیا ہوا تھا؟
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے سلامتی کونسل میں طویل تاریخی تقریر کی، جو مشرقی پاکستان کو تو نہ بچا سکی لیکن انہیں ایک قومی اور عالمی لیڈر کے طور پر روشناس کرا گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہندوستان کی تقسیم بھی ہندوؤں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہوئی۔ یہ تنگ نظر ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر فرانسیسی اور جرمن اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں، روس اور امریکہ، چین اور امریکہ اپنے تعلقات کا نیا دور شروع کر سکتے ہیں تو پاکستان اور انڈیا کیوں نہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں لیکن جیسا کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو جو فوجی برتری حاصل ہوئی اس کے بعد وہاں امن کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں، اگر آپ پاکستان کو بھی فوجی حوالے سے محکوم بنانا چاہتے ہیں تو اس کے بعد وہاں بھی امن کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔ ہم بہادر قوم ہیں جو لڑنا جانتے ہیں اور اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم ہزار سال تک لڑیں گے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ وہاں امن اور بقائے باہمی چاہتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے دشمن چاہتے ہیں۔‘
اپنے طویل خطاب کے بعد انہوں نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا اور سلامتی کونسل میں تقریر کے لیے بنائے گئے اپنے نوٹس پھاڑتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتا۔‘
میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو آغا شاہی پاکستان کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔
بھٹو کے ساتھ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب آغا شاہی نے بھی سلامتی کونسل سے واک آؤٹ کیا۔ بھٹو نے روس اور انڈیا پر سخت الزامات عائد کیے اور کہا کہ یہ ان کی چالاکی ہے، وہ ڈھاکہ پر قبضے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ’میں پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کارروائیوں میں فریق نہیں بن سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’سلامتی کونسل میں آپ خواہ کوئی فیصلہ کریں آپ کو اختیار ہے۔ آپ مشرقی پاکستان پر غیر قانونی قبضہ کو قانونی شکل دے سکتے ہیں لیکن میں ان کارروائیوں میں آپ کا شریک نہیں بن سکتا۔‘
بھٹو نے اپنی تقریر کے دوران امریکہ اور چین کی تعریف کی۔
ہتھیار ڈالنے کے وقت میں 15 گھنٹوں کی تاخیر
15 اگست کو انڈین فضائیہ نے کراچی کی ایک بستی میں بمباری کی، جس سے 30 افراد جان سے گئے اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کے شہری علاقوں میں بمباری سے سینکڑوں افراد کی موت ہوئی۔ کومیلا، چٹاگانگ اور سلہٹ پر بھی بھارتی فضائیہ نے حملے کیے۔
سیالکوٹ پر انڈین فضائیہ کے حملوں میں بھی 300 سے زائد اموات ہوئیں، جس پر پاکستانی فضائیہ کے کمانڈر ان چیف ایئر مارشل اے رحیم نے کہا کہ ’جب تک بھارتی جارحیت کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا اور پاکستان کی شرائط پر جنگ بندی نہیں ہوتی پاکستان جنگ جاری رکھے گا۔‘
انڈیا کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالسز کے مطابق جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے لیے ایک دہری دفاعی لائن بنا رکھی تھی۔ ایک بیرونی لائن تھی اور دوسری اندرونی، جن کو پیچھے سے کمک پہنچانے کا بھی ایک مربوط نظام موجود تھا لیکن جب یہ نظام کارگر ثابت نہیں ہوا تو فیصلہ ہوا کہ یونیفارم میں موجود تمام فورسز لڑیں گی، جس کے لیے صرف 1500 فوجی اور ان کے ساتھ 3500 پولیس اور نیم فوجی دستے میسر آ سکے۔
دفتروں میں موجود سٹاف کو بھی باہر نکال کر لڑنے کے لیے تیار کیا گیا۔ اس آخری معرکے لیے چند مارٹر گنیں، ٹینکوں کا ایک سکواڈرن، اینٹی ٹینک اور مشین گنیں شامل تھیں۔ اگر وہ بہادری دکھاتے تب بھی وہ کتنا عرصہ انڈین فوج کو ڈھاکہ سے دور رکھ سکتے تھے۔
کیونکہ 15 دسمبر کو جنرل نیازی کے سب سے اہم ساتھی مشرقی پاکستان کے گورنر مالک نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ایک روز پہلے ہی گورنر ہاؤس پر اس وقت انڈیا نے بمباری کی تھی جب وہاں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو رہا تھا۔ گورنر وہاں سے اپنی جان بچا کر انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل آ گئے تھے، جسے ہلال احمر نے نیوٹرل زون قرار دیا ہوا تھا۔
دوسری جانب انڈین آرمی چیف جنرل منیکشا مشرقی پاکستان میں اردو، بنگالی اور پشتو کے ذریعے پمفلٹ گرا رہے تھے، جن میں کہا جا رہا تھا کہ پاکستانی فوجیں اگر جنگ بندی چاہتی ہیں تو وہ ہر صورت 16 دسمبر کو صبح نو بجے تک ہتھیار ڈال دیں اور ساتھ ہی اس نے پاکستانی فوج کو جنرل اروڑا سے رابطہ کرنے کا کہا اور ساتھ یہ آفر بھی کی کہ اگر جنرل نیازی ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوں تو وہ 15 دسمبر کو صبح پانچ بجے ڈھاکہ میں جنگ بند کر دیں گے۔
جنرل نیازی کی درخواست پر بعد ازاں ہتھیار ڈالنے کے وقت کو 15 گھنٹے آگے کیا گیا، جس پر انڈین آرمی چیف نے کہا کہ اگر 16 دسمبر کو صبح نو بجے تک ہتھیار نہ ڈالے گئے تو وہ دوبارہ فضائی حملے شروع کر دیں گے۔
آخرکار 16 دسمبر کو اس رسمی کارروائی کا آغاز ہو گیا جس کا اعادہ 15 دسمبر کو کیا جا چکا تھا۔ پاکستان 15 دسمبر کو ٹوٹ چکا تھا۔ سلامتی کونسل میں ذوالفقار علی بھٹو کی شاندار اور طویل تقریر آج بھی وہاں کی جانے والی تقریروں میں سرفہرست ہے مگر پاکستان یہ جنگ ہار گیا۔
لیکن پاکستان میں آج بھی یہ سوال موجود ہے کہ یہ شکست سیاسی تھی یا فوجی؟