تفتیش کار کینیڈا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ پر پیر (17 فروری) کو ہونے والے ایک غیر معمولی حادثے کی وجوہات کا جائزہ لے رہے ہیں، جب ایک ہوائی جہاز شدید ہواؤں کے دوران لینڈنگ کرتے ہوئے الٹ گیا، جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار 80 میں سے 21 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل حادثے کی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈیلٹا ایئر لائنز کا سی آر جے 900 طیارہ ٹورنٹو کے پیئرسن ایئرپورٹ پر الٹا پڑا ہے اور اس کا دایاں پر غائب ہے۔ اس حادثے میں اموات نہیں ہوئیں۔
روئٹرز کے مطابق کینیڈا کے ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (ٹی ایس بی) نے منگل کو بتایا کہ طیارے کے کچھ حصے زمین سے ٹکرانے کے بعد الگ ہو گئے اور اس کا ڈھانچہ رن وے کے دائیں طرف الٹا جا گرا اور مخالف سمت میں رک گیا۔
ٹی ایس بی کے مطابق یہ جاننا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ حادثہ کیسے اور کیوں پیش آیا۔
یہاں ہم اس حادثے اور اسی طرح کے دیگر واقعات کے بارے میں جانتے ہیں۔
جہاز الٹا کیسے لینڈ کر سکتا ہے؟
امریکی ہوا بازی کے ماہر انتھونی برک ہاؤس کے مطابق عام طور پر طیارے کو پہلے مرکزی لینڈنگ گیئر پر اور پھر اگلے گیئر پر اترنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ اگرچہ حادثے کی وجہ واضح نہیں ہے، لیکن رن وے پر لینڈنگ کے انداز سے لگتا ہے کہ لینڈنگ گیئر کو نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے طیارے کا توازن بگڑ گیا۔
برک ہاؤس کے مطابق طیارے کا الٹا ہو کر مخالف سمت میں چلے جانا اُس طاقت اور رفتار کو ظاہر کرتا ہے، جس کی وجہ سے یہ سمت تبدیل کر گیا۔
انہوں نے کہا: ’جب تمام قوتیں اور دباؤ کام کر رہے ہوں اور اگر پَر (Wing) جہاز کو سہارا نہ دے سکے، تو وہ الٹ جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایسی چیز نہیں ہے جو عام طور پر ہوتی ہو، لیکن جب طیاروں کے ڈھانچے کمزور ہو جاتے ہیں تو وہ اپنا کام نہیں کر سکتے اور پھر طیارہ مختلف قوتوں کے مطابق ردعمل ظاہر کرتا ہے۔‘
تمام مسافر کیسے بچ گئے؟
طیارے میں سوار مسافروں کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد وہ اپنی نشستوں پر الٹے لٹک رہے تھے۔
ایشیا پیسیفک سینٹر فار ایوی ایشن سیفٹی کے ڈائریکٹر مچل فاکس نے کہا: ’تمام مسافروں نے حفاظتی بیلٹ باندھے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے انہیں مزید سنگین چوٹیں نہیں آئیں۔‘
طیارے کی نشستیں 16 گنا زیادہ کشش ثقل کی طاقت یعنی 16 جی ایس (16Gs) کو برداشت کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں جبکہ اس کے پَر اور ڈھانچہ عام طور پر تین سے پانچ جی ایس سنبھال سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے ایرو سپیس انجینیئرنگ پروگرام منیجر راج لدانی کے مطابق: ’ایسے حادثات میں نشستوں کا مضبوط ہونا سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے، کیونکہ یہ مسافروں کو زندہ رہنے کا سب سے بہتر موقع دیتا ہے۔‘
اسی طرح انخلا کا بہتر طریقہ بھی فضائی حادثات میں بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے، جیسا کہ گذشتہ سال دیکھا گیا کہ جاپان ایئر لائنز کے ایک طیارے میں رن وے پر تصادم کے بعد آگ لگ گئی، مگر 379 مسافر بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ڈیلٹا حادثے کے بارے میں فاکس نیوز نے کہا: ’عملے نے تمام مسافروں کو جلدی اور مؤثر طریقے سے نکالنے کا شاندار کام کیا۔‘
کیا ایسا پہلے بھی ہوا ہے؟
اگرچہ اس طرح کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں، لیکن لینڈنگ کے دوران بڑے طیاروں کے الٹ جانے کے کچھ واقعات ماضی میں بھی پیش آ چکے ہیں، جن میں میکڈونل ڈگلس کے ایم ڈی-11 ماڈل کے تین حادثات شامل ہیں۔
2009 میں ٹوکیو کے نریتا ایئرپورٹ پر ایک فیڈ ایکس کارگو طیارہ تیز ہوا کے دوران اترتے وقت الٹ گیا، جس سے دونوں پائلٹ چل بسے۔ حادثے میں طیارے کا بایاں پَر ٹوٹ کر الگ ہو گیا اور جہاز میں آگ لگ گئی۔
1999 میں چائنا ایئر لائنز کا ایک طیارہ ہانگ کانگ میں لینڈنگ کے دوران ایک طوفان کی زد میں آ کر الٹ گیا اور اس میں آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں 315 میں سے تین افراد کی اموات ہوئیں۔
1997 میں امریکہ کے نیوارک ایئرپورٹ پر ایک اور فیڈ ایکس کارگو طیارہ الٹ گیا، تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ماہر ہوا بازی برک ہاؤس کے مطابق ان گذشتہ واقعات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا ابھی جلد بازی ہوگی، کیونکہ ایم ڈی-11 تین انجن والا طیارہ ہے، جبکہ سی آر جے 900 میں دو انجن پیچھے نصب ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی پرواز کی حرکیات (فلائٹ ڈائنامکس) مختلف ہوتی ہیں۔
تحقیقات کیسے آگے بڑھیں گی؟
دیگر فضائی حادثات کی تحقیقات کے برعکس، جہاں جہاز کے کچھ حصے لاپتہ ہوتے ہیں اور بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا ہے، اس حادثے میں تفتیش کاروں کو تمام 76 مسافروں اور عملے کے چار ارکان سے انٹرویو لینے کا موقع ملے گا۔
تحقیقاتی ٹیم کو طیارے کے بنیادی ڈھانچے یعنی فیوزلاج اور پَروں تک رسائی حاصل ہے، جو رن وے پر موجود ہیں، جبکہ بلیک باکسز یعنی فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر کو تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
برک ہاؤس نے کہا: ’یہ ایک نصابی کتاب کی طرز کی تفتیش ہوگی۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’کچھ حادثات میں، ہمارے پاس بہت سے اہم شواہد کی کمی ہوتی ہے، لیکن اس کیس میں تمام شواہد موجود ہیں۔ اب صرف ان ٹکڑوں کو جوڑ کر مکمل تصویر بنانے کا کام باقی ہے۔‘