روسی صدر کی آذربائیجان کے طیارہ حادثے پر معذرت

کریملن نے ایک بیان میں کہا کہ جس وقت طیارہ اترنے کی کوشش کر رہا تھا اس وقت گروزنی کے قریب فضائی دفاعی نظام یوکرینی ڈرون حملے سے نمٹ رہا تھا۔

آذربائیجان ایئرلائن کے طیارے کو 25 دسمبر 2024 کو پیش آنے والے حادثے میں 38 افراد جان سے گئے اور 29 زخمی ہوئے (منگیسٹاؤ ریجن کی انتظامیہ)

روسی صدر ولادی میر پوتن نے ہفتے کو آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف سے قازقستان کے اندر آذربائیجان کا ایک طیارہ گرنے سے 38 اموات کے ’افسوس ناک واقعے‘ پر معذرت کی ہے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق طیارہ بدھ کو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو سے روسی جمہوریہ چیچنیا کے علاقائی دارالحکومت گروزنی جا رہا تھا، جب وہ قازقستان کی طرف مڑ گیا اور لینڈنگ کی کوشش کے دوران گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثے میں 29 افراد زندہ بچ گئے۔

ہفتے کو کریملن نے ایک بیان میں کہا کہ جس وقت طیارہ اترنے کی کوشش کر رہا تھا اس وقت گروزنی کے قریب فضائی دفاعی نظام یوکرینی ڈرون حملے سے نمٹ رہا تھا۔

بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا طیارہ دفاعی نظام کی زد میں آیا کہ نہیں۔

کریملن کے بیان کے مطابق، پوتن نے علیئیف سے بات چیت کے دوران ’اس واقعے کے روسی فضائی حدود میں پیش آنے پر‘ معذرت کی۔

’آذربائیجانی طیارہ حادثے کی ممکنہ وجہ روسی دفاعی سسٹم‘

ایک امریکی اہلکار نے جمعے کو کہا کہ کرسمس کے دن پیش آئے اس واقعے کی ممکنہ وجہ روسی فضائی دفاعی نظام ہو سکتا ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اس واقعے کی تحقیقات سے واقف آذربائیجان کے ایک ذرائع نے کہا کہ روسی فضائی دفاعی نظام ’پینتسیر-ایس‘ کی فائرنگ اس تباہ کن حادثے کی ممکنہ وجہ ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ نے’ابتدائی شواہد دیکھے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ طیارہ ممکنہ طور پر روسی فضائی دفاعی نظام کے ذریعے گرایا گیا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ کے پاس ایسی انٹیلی جنس موجود ہے، جس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا یا صرف ماہرین کی قیاس آرائیوں پر انحصار کیا جا رہا ہے، تو جان کربی نے جواب دیا: ’جی ہاں‘، لیکن انہوں نے اس پر مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ان بیانات نے ماسکو پر دباؤ بڑھا دیا ہے، جس نے ان الزامات کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا کہ مکمل تحقیقات کے نتائج سے پہلے ’مفروضے‘ پر قیاس آرائی کرنا غلط ہے۔

آذربائیجان ایئر لائنز کے ایمبریئر 190 طیارے کو باکو سے اڑان بھرنے کے بعد بدھ کو شمالی قفقاز میں روسی شہر گروزنی میں اترنا تھا لیکن اسے چند وجوہات کی بنا پر موڑ دیا گیا، جس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

طیارہ قازقستان کے شہر آکتاؤ کے قریب زمین پر گرنے کے بعد ایک آگ کے گولے میں تبدیل ہو گیا، جہاں یہ بحیرہ کیسپیئن کے مشرقی جانب پرواز کرنے کے بعد اترنے کی امید کر رہا تھا۔

حادثے کی جگہ آکتاؤ سے صرف تین کلومیٹر (دو میل) کے فاصلے پر تھی۔ موبائل فون کی فوٹیج میں طیارے کو زمین پر گرنے سے پہلے تیزی سے نیچے آتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

حادثے سے بچ جانے والے صبوحونکل رحیموف نے، جو اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں،روئٹرز کو بتایا: ’مجھے لگا طیارہ ٹکڑوں میں بکھر جائے گا‘ اور یہ ’نشے میں‘ لگ دے رہا تھا، خاص طور پر ایک زور دار دھماکے کے بعد۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد وہ دعائیں پڑھنا شروع ہو گئے اور موت کے لیے خود کو تیار کرنا شروع کر دیا۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Independent Urdu (@indyurdu)

چار ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ آذربائیجان میں ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثے کا ذمہ دار روسی فضائی دفاعی نظام کو ٹھہرایا گیا ہے۔

ان ذرائع میں سے ایک کے مطابق طیارے کے مواصلاتی نظام کو گروزنی کے قریب پہنچنے پر الیکٹرانک جنگی نظام کے ذریعے منقطع کر دیا گیا تھا۔

ذرائع نے مزید کہا: ’کوئی یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ یہ کام جان بوجھ کر کیا گیا، تاہم موجودہ شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے باکو کو توقع ہے کہ روسی حکام آذربائیجانی طیارے کو گرانے کی ذمہ داری قبول کریں گے۔‘

آذربائیجان ایئرلائنز نے جمعے کو کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ حادثے سے قبل طیارے میں ’بیرونی اور تکنیکی مداخلت‘ کی گئی تھی۔

او پی ایس گروپ، جو دنیا بھر میں فضائی حدود اور ہوائی اڈوں کے خطرات کی نگرانی کرتا ہے، کے مارک زی کے مطابق تباہ شدہ طیارے کی تصاویر کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے تقریباً زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل (SAM) نے نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ طیارے کے حادثے کے پیچھے SAM حملے کے امکان کی شرح ’90 سے 99 فیصد‘ تک ہے۔

ان تصاویر سے آزاد روسی عسکری ماہر یان ماتویف نے بھی ایسے ہی نتائج اخذ کیے۔ انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’ایسا لگتا ہے کہ طیارے کے پچھلے حصے کو میزائل کے ٹکڑوں سے نقصان پہنچا۔‘

ماتویف نے کہا: ’یہ واضح نہیں کہ طیارے کے نشانہ بننے کے بعد پائلٹ نے سینکڑوں میل مشرق کی طرف پرواز کرنے کا فیصلہ کیوں کیا، بجائے اس کے کہ وہ کسی اور روسی ہوائی اڈے پر لینڈ کرنے کی کوشش کرتے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’شاید طیارے کے کچھ نظام کچھ دیر تک کام کرتے رہے اور عملے کو یقین تھا کہ وہ بحفاظت لینڈنگ کر سکیں گے۔‘

انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ ممکنہ طور پر عملے کو روس میں لینڈنگ پر پابندی کا سامنا تھا۔

روس کی ایوی ایشن واچ ڈاگ روساویاتسیا نے کہا کہ پرواز نے شدید دھند اور یوکرینی ڈرونز کے مقامی الرٹ کی وجہ سے چیچنیا میں اپنی اصل منزل کا راستہ بدل دیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ طیارے کے کپتان کو لینڈنگ کے لیے دیگر ہوائی اڈوں کا بتایا گیا تھا، لیکن انہوں نے قازقستان کے آکتاؤ کو منتخب کیا۔

ایوی ایشن واچ ڈاگ کا کہنا ہے کہ اس نے حادثے کی تحقیقات میں قازقستان اور آذربائیجان کو معاونت فراہم کی ہے، جبکہ ماسکو کا کہنا ہے کہ اصل حقائق جاننے کے لیے تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کرنا ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس واقعے کا موازنہ 2014 میں یوکرین کی فضائی حدود میں گرائے گئے ملائیشین ایئرلائنز کی پرواز ایم ایچ 17کے حادثے سے کیا جا رہا ہے۔

فرانس کی فضائی حادثات کی تحقیقات کے ادارے بی ای اے کے سابق ماہر نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ یہ حادثہ ’ایم ایچ 17 واقعے کی یاد دلاتا ہے‘، وہ بھی روس اور یوکرین کے درمیان تنازعے والے علاقے میں پیش آیا تھا۔

ملائیشین ایئرلائنز کی یہ پرواز جولائی 2014 میں ایمسٹرڈیم سے کوالالمپور جاتے ہوئے مشرقی یوکرین کی فضائی حدود میں بلندی پرواز کر رہی تھی۔ ایک روس نواز ملیشیا نے طیارے کو غلطی سے یوکرینی فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ سمجھ لیا تھا۔

ابتدائی طور پر ان علیحدگی پسندوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے میزائل کسی بھی طیارے کو اتنی بلندی پر نشانہ بنانے کے لیے جدید نہیں تھے اور انہوں نے اس حادثے میں کسی قسم کی شمولیت سے انکار کیا، تاہم بعد کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ طیارہ ان کے فضائی دفاعی نظام کا نشانہ بنا تھا۔

اگرچہ متعدد ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آذربائیجان ایئرلائنز کی پرواز کو مار گرایا گیا، لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

آذربائیجان کے صدر الہام علیف نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ حادثے کے پیچھے وجوہات کے بارے میں قیاس آرائی کرنا ابھی قبل از وقت ہے، لیکن ابتدائی معلومات کے مطابق خراب موسم کی وجہ سے طیارے نے اپنا مقررہ راستہ تبدیل کیا تھا۔

انہوں نے کہا: ’مجھے جو معلومات فراہم کی گئی ہیں اس کے مطابق طیارے نے باکو اور گرونزی کے درمیان خراب موسم کی وجہ سے اپنا راستہ تبدیل کیا اور آکتاؤ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا، جہاں یہ لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوا۔‘

آذربائیجان، قازقستان، اور روس کی حکام نے حادثے کی ممکنہ وجوہات پر گفتگو کرتے وقت احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔

تاہم، آذربائیجان کے قانون ساز راسیم موسیٰ بیکوف نے کہا کہ طیارے پر فضا میں فائرنگ کی گئی تھی، انہوں نے روس سے معافی کا مطالبہ بھی کیا۔

آذربائیجانی خبر رساں ادارے توران کے مطابق موسیٰ بیکوف نے کہا: ’جنہوں نے یہ کام کیا انہیں مجرمانہ کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کو معاوضہ بھی دیا جانا چاہیے، ورنہ ’تعلقات متاثر ہوں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا