کراچی کے نیٹوِ جیٹی پُل سے میٹروپول ہوٹل تک روایتی گدھا گاڑی ریس کا انعقاد بدھ کو ہوا جس میں لالو کھیت کے رہائشی محمد عارف بلوچ کے ’سرتاج‘ نامی گدھے نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
محکمہ کھیل سندھ کی جانب سے ریس میں پہلی پوزیشن آنے پر محمد عارف بلوچ کو ایک لاکھ روپے انعام دیا گیا۔
تقریباً ساڑھے چار کلومیٹر طویل اس ریس میں 40 کھلاڑیوں نے اپنی گدھا گاڑیوں سمیت شرکت کی۔
ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے گدھے کے مالک محمد عارف بلوچ کے مطابق انہیں 2008 سے گدھا گاڑی ریس کا شوق ہے۔
2010 سے وہ باضابطہ طور پر گدھا گاڑی ریس میں حصہ لے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عارف بلوچ نے کہا: ’میرے گدھے سرتاج نے مجھے 2024 میں دو بار ڈونکی کارٹ ریس میں کامیاب کرایا۔ 2020 میں یہ گدھے کا بچہ 35 ہزار روپے میں خریدا تھا۔
’آج سرتاج چار سال کا ہے اور اس کی کامیابی دیکھ کر مجھے پاکستان بھر سے فون آتے ہیں۔ سرتاج کی تین لاکھ روپے، پانچ لاکھ روپے کی بولی لگتی ہے۔ مگر میں بیچوں گا نہیں۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ’میری گھرانے کا روزانہ خرچہ ایک ہزار روپے ہے اور اکیلے سرتاج کی خوراک پر روزانہ ایک ہزار روپے خرچہ آتا ہے۔‘
محمد عارف بلوچ شکوہ کرتے ہیں کہ گدھا گاڑی ایک روایتی کھیل ہے، مگر حکومت کی جانب سے اس کھیل کو پذیرائی نہیں دی جاتی۔
بقول محمد عارف بلوچ: ’اس ریس میں شرکت سے قبل میں نے گدھے کی خوراک اور دیگر تیاریوں کے لیے 42 ہزار روپے کا قرضہ لیا۔
’عام دنوں میں جانور کی خوراک کے علاوہ علاج معالجے اور دیگر اخراجات کی مد میں بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے، مگر حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں کی جاتی۔‘
محمد عارف نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ روایتی کھیل عام طور پر شہر کے اہم شاہراہوں پر کھیلا جاتا ہے۔ کئی بار گدھے گاڑی کو حادثہ پیش آ جاتا ہے، جس میں گاڑی ٹوٹنے کے ساتھ جانور مر جاتا ہے اور کھلاڑی زخمی ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر حکومت اس کھیل کی پذیرائی کرے تو کھیل ملکی سطح تک مقبول ہو سکتا ہے۔‘