انڈیا سے ہار کے بعد پاکستان کے سابق کھلاڑیوں نے ٹیم اور کرکٹ بورڈ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اٹھائے ہیں۔ بعض پوچھ رہے یں کہ کیا ٹیم کے کھلاڑی ایک دوسرے سے ایمان دار ہیں اور کچھ دوسروں نے چیئرمین بورڈ کے سرجری کے دعوے پر انہیں اوزار فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے میگا ایونٹ چیمپئنز ٹرافی کے اہم میچ میں اتوار کی رات کو انڈیا نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی جس پر شائقین کرکٹ اور سابق کرکٹرز سیخ پا دیکھائی دے رہے ہیں۔
ٹیم سلیکشن، سپنرز کی کمی، اوپنرز کا فقدان جیسے معاملات کو لے کر سابق کرکٹرز پاکستان کے سکواڈ پر ایونٹ شروع ہونے سے قبل ہی تنقید کر رہے تھے۔
ساتھ میں بعض کے خیال میں پاکستانی ٹیم کے حالت کا سب کو اندازہ تھا لیکن میڈیا چینلز نے پیسے کمانے کی خاطر اس میچ کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جیسے کہ یہ کافی کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔
گذشتہ روز ہونے والے میچ میں ایک طرف انڈیا کے پاس کلدیپ یادیو، رویندرا جدیجا اور اکشر پٹیل جیسے تین سپنر تھے لیکن پاکستان صرف ایک سپیشلسٹ سپنر ابرار کے ساتھ میدان میں اترا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے سکواڈ پر یہ تنقید بھی ہوتی رہی کہ ٹیم میرٹ پر منتخب نہیں کی گئی۔
پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف نے اس حوالے سے جیو نیوز کے شو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرٹ اس وقت ہوگا جب آپ کا چیئرمین میرٹ پر ہوگا، اگر چیئرمین پر میرٹ پر نہیں تو وہ ویسا ہی کرے گا جیسے وہ خود آئے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کے ساتھ جو لوگ آئے ہوئے ہیں وہ بھی ایسے ہی ہیں اور وہ سٹیڈیم بنا رہے ہیں ٹھیک ہیں مگر انہیں کرکٹ کا نہیں پتہ۔‘
سابق اوپنر بلے باز احمد شہزاد انڈیا، پاکستان میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے کافی غصے میں دکھائی دی۔
شکست کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے احمد شہزاد کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایک ہی کھیل رہ گیا تھا آج اس کا بھی جنازہ نکال دیا گیا ہے، گزشتہ دو ایونٹس ہوگئے ہیں اگلے مرحلے میں نہیں پہنچ سکی، اس سے بری حالت آج تک میں نے پاکستان ٹیم کی نہیں دیکھی۔‘
احمد شہزاد کا کہنا تھا کہ ’کیا اب بھی کوئی احتساب ہوگا کہ نہیں، اب بھی کوئی سرجری کریں گے کہ نہیں کریں گے، نہیں ہیں اوزار تو بتائیں ہم دیتے ہیں اوزار آپ کو۔‘
شعیب اختر نے پاکستان ٹیلی ویژن کے کرکٹ شو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’20 سالوں سے سن رہے ہیں کہ ٹیلنٹ ہے، کوئی ٹیلنٹ نہیں ہوتا تو دیکھائی دیتا۔
’سٹار بننے کے لیے رنز بنانے پڑتے ہیں، آؤٹ کرنے پڑتے ہیں، اندھیرے میں نہیں سٹار بن جاتے۔‘
پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم آدھا ٹورنمنٹ اس وقت ہی ہار گئے تھے جب سکواڈ کا اعلان ہوا۔
’ہمیں معلوم تھا کہ ایک میچ ہمارا دبئی میں ضرور ہونا ہے پھر بھی صرف ایک سپنر ٹیم میں رکھا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے سکواڈ کا کپتان دھونی ہو، یونس خان ہو یا محمد حفیظ ہو، وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔‘
سابق کپتان محمد حفیظ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگوں کو امید تھی کہ شاہین آفریدی، نسیم شاہ، محمد حارث میگا ایونٹ جتوا کر دیں گے مگر، ایک روزہ ورلڈ کپ ہو، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو یا چیمپئنز ٹرافی ہو یہ ناکام ہو گئے۔
’اب ان سے آگے جانا ہوگا، میر حمزہ، وسیم خان اور خرم شہزاد جیسے کھلاڑی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، انہیں موقع دینا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب جب پاکستان سُپر لیگ شروع ہو گی تو سارے سٹارز جاگ جائیں گے، ہمیں اشتہاری سٹارز نہیں چاہیے۔‘
تاہم سابق انڈین کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے سٹار سپورٹس پر تبصرے میں بابر اعظم کی تعریف کی اور کہا کہ ’ان کے ضبط کی تعریف کرنی ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ ہارتے ہیں تو سب آپکی تعریف کرتے ہیں مگر ایک شکست کے بعد سب آپ کے مخالف ہو جاتے ہیں۔‘
انڈیا کے سابق کرکٹر اجے جدجا نے ٹین سپورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا پاکستان کے ڈریسنگ روم میں ایسا ماحول ہے کہ دوسرے کو بتا سکیں گے تم آج خراب کھیلے ہو؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کیا کھلاڑیوں کے آپس میں ایسے تعلقات ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایمان داری سے دوسرے کھلاڑی کی غلطی بتا سکیں۔‘