مصر نے جمعرات کو اعلان کیا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ فائربندی معاہدے کے اگلے مرحلے پر مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔
مصر کی ریاستی اطلاعاتی سروس کے مطابق، اسرائیل، قطر اور امریکہ کے حکام نے قاہرہ میں فائر بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر ’تفصیلی بات چیت‘ کا آغاز کیا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بیان میں کہا گیا: ’ثالث غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل کو بڑھانے کے طریقوں پر بھی غور کر رہے ہیں تاکہ آبادی کی تکالیف کو کم کیا جا سکے اور خطے میں استحکام کے لیے کوششیں کی جا سکیں۔‘
دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا مقصد مسلح تنازع کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے، جس میں غزہ میں موجود تمام قیدیوں کی واپسی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہے۔ تیسرے مرحلے میں ان قیدیوں کی باقیات کی واپس ہوں گی جو اب زندہ نہیں ہیں۔
اسرائیل کے مطابق، غزہ میں اب بھی 59 قیدی موجود ہیں، جن میں سے 24 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
تاہم، یہ معاہدہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے جنگی مقاصد سے متصادم ہو سکتا ہے، جو حماس کی حکومتی اور عسکری صلاحیتوں کو ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس مسلح تنازعے میں بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود، حماس فائر بندی کے دوران بھی خود کو مستحکم رکھنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالے گی۔
بات چیت شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل، ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ ملک غزہ کی پٹی میں ایک سٹریٹجک راہداری سے پیچھے نہیں ہٹے گا جیسا کہ فائر بندی کے تحت کہا گیا تھا، یہ انکار حماس اور کلیدی ثالث مصر کے ساتھ مذاکرات کو انتہائی پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل فلاڈیلفی کوریڈور سے انخلا نہیں کرے گا، حالانکہ فائر بندی معاہدے کے تحت اسے وہاں سے پیچھے ہٹنا تھا۔ اس فیصلے سے حماس اور اہم ثالث مصر کے ساتھ مذاکرات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
دریں اثنا، حماس نے کہا کہ اگر اسرائیل نے فلاڈیلفی کوریڈور میں بفر زون برقرار رکھنے کی کوشش کی تو یہ فائر بندی معاہدے کی ’واضح خلاف ورزی‘ ہوگی۔
پہلے مرحلے کا آخری تبادلہ
جمعرات کو حماس نے چار قیدیوں کی باقیات کے بدلے 600 سے سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، جو کہ فائر بندی کے پہلے مرحلے کے تحت ہونے والا آخری تبادلہ تھا۔
جمعرات کو جن قیدیوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کی گئیں ان کی شناخت اوہاد یہالومی، اتزحاک ایلگرات، شلومو مانتزور، اور ساشی ایڈان کے طور پر کی گئی۔
اسرائیل نے 44 فلسطینی نوعمر لڑکوں اور دو خواتین کو رہا کیا۔ ان کی عمریں 15 سے 19 سال کے درمیان تھیں۔
فلسطینی قیدیوں کے نمائندہ گروپ کے مطابق، مجموعی طور پر 445 مرد، 21 نوجوان اور ایک خاتون رہا کیے گئے۔
یہ فائر بندی کے پہلے چھ ہفتوں پر محیط عرصے کا آخری تبادلہ تھا۔ اس مرحلے میں حماس نے 33 قیدیوں (جن میں آٹھ کی لاشیں شامل تھیں) کو تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے عہد کیا ہے کہ وہ تمام قیدیوں کو واپس لائیں گے اور حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو مکمل طور پر تباہ کریں گے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل فائر بندی برقرار رکھتے ہوئے حماس کو کیسے تباہ کریں گا، اور حماس بھی بغیر مستقل فائر بندی کے قیدیوں کو آزاد کرنے پر تیار نہیں۔
یہ فائر بندی امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں عمل میں آئی، جس کے نتیجے میں 15 ماہ سے جاری مسلح تنازع ختم ہوا۔
اس تنازعے کا آغاز حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے سے ہوا تھا، جس میں تقریباً 1,200 اسرائیلی مارے گئے تھے اور 250 کو قیدی بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔
سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی فوجی حملوں میں 48,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں نصف سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے، جبکہ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ اور صحت کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔