امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول اور فلسطینیوں کی بے دخلی کے متبادل منصوبے پر گفتگو کے لیے عرب ریاستوں کے سربراہان جمعے کو سعودی عرب میں پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے نے عرب ریاستوں کو مخالفت میں متحد کر دیا ہے، لیکن جنگ سے تباہ حال فلسطینی سرزمین پر کس کو حکومت کرنا چاہیے اور اس کی تعمیر نو کے لیے فنڈز کیسے ادا کیے جائیں پر اختلافات تاحال برقرار ہیں۔
سعودی خارجہ پالیسی کے ماہر عمر کریم نے اس سربراہی اجلاس کو وسیع عرب دنیا اور مسئلہ فلسطین کے لیے دہائیوں میں ’سب سے زیادہ نتیجہ خیز‘ قرار دیا۔
ٹرمپ نے اس وقت عالمی غم و غصے کو جنم دیا جب انہوں نے امریکہ کو ’غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے‘ اور اپنے 24 لاکھ لوگوں کو پڑوسی ممالک مصر اور اردن میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی۔
سعودی حکومت کے قریبی ذرائع نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ عرب رہنما ’غزہ کے لیے ٹرمپ کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے تعمیر نو کے منصوبے‘ پر بات کریں گے۔
ایک سال تک اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ تباہی کا شکار ہے، جب کہ اقوام متحدہ نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ تعمیر نو پر پانچ ارب ڈالر سے زیادہ سے لاگت آئے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
11 فروری کو واشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ مصر آگے بڑھنے کے لیے ایک منصوبہ پیش کرے گا۔
سعودی ذریعہ نے کہا کہ بات چیت میں ’مصری منصوبے کے ایک ورژن‘ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے ایک اہلکار کے حوالے سے جمعرات کو تصدیق کی کہ ریاض سربراہی اجلاس میں مصر اور اردن خلیج تعاون کونسل کے چھ ممالک کے رکن ممالک کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔
اس نے یہ بھی کہا کہ ’غیر سرکاری برادرانہ اجلاس‘ کے جاری کردہ فیصلے چار مارچ کو مصر میں ہونے والے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہوں گے۔
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے دفتر کے مطابق وہ جمعرات کو سعودی عرب پہنچے۔
اس سے قبل سعودی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی بھی مذاکرات میں حصہ لے گی۔