چین نے اپنی فوج پر اخراجات میں اضافے کرتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجارتی محصولات (ٹیرف) کے خلاف جوابی کارروائی سمیت ’کسی بھی قسم کی‘ جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے۔
منگل کو دو بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ اس وقت مزید شدت اختیار کر گئی جب امریکی صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر محصولات کو بڑھا کر 20 فیصد کر دیا، جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی زرعی اشیا پر 15 فیصد ٹیرف عائد کر دیا۔
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے ایکس پر جاری پوسٹ میں کہا: ’اگر امریکہ جنگ چاہتا ہے، چاہے وہ محصولات کی جنگ ہو، تجارتی جنگ ہو یا کسی اور قسم کی جنگ، ہم آخر تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘
سفارت خانے کے ترجمان نے بھی چینی وزارت خارجہ کے اس بیان کے الفاظ دہرائے، جو ٹرمپ کے محصولات کے نافذ ہونے کے فوراً بعد جاری کیا گیا تھا۔
وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ محصولات کی جنگ، تجارتی جنگ یا کسی بھی قسم کی جنگ مسلط کرنے پر اصرار کرتا ہے، تو چین ’آخری حد تک‘ لڑنے کے لیے تیار ہے۔
یہ لفظی جنگ اس وقت سامنے آئی، جب چین نے اعلان کیا کہ وہ رواں سال اپنے دفاعی اخراجات میں 7.2 فیصد اضافہ کرے گا۔ یہ اضافہ، جو ایک سرکاری رپورٹ میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، پچھلے سال کے برابر ہے۔
یہ اضافہ چین کی پانچ فیصد کی متوقع اقتصادی ترقی سے کہیں زیادہ ہے۔ صدر شی جن پنگ کے ایک دہائی قبل صدر اور کمانڈر اِنچیف بنے کے بعد چین کا دفاعی بجٹ 2013 میں 720 بلین یوان سے بڑھ کر 2025 میں 1.78 ٹریلین یوان ہو چکا ہے۔
صدر شی جن پنگ کا ہدف 2035 تک فوج کو مکمل جدید بنانا ہے، جس کے تحت نئے میزائل، بحری جہاز، آبدوزیں اور نگرانی کی ٹیکنالوجیز تیار کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر تازہ محصولات کا جواز پیش کرتے ہوئے بیجنگ کو امریکہ میں فینٹینائل اوپیئڈ بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مہلک نشہ آور مادہ بڑی مقدار میں چین میں تیار کیا جاتا ہے۔
اس الزام کے جواب میں چین نے امریکہ پر ’بلیک میلنگ‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک میں دنیا کے سخت ترین انسداد منشیات قوانین نافذ ہیں۔
بیجنگ کی وزارت خارجہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کر سکتیں، دھونس ہمارے خلاف کارگر نہیں، دباؤ، زبردستی یا دھمکیاں چین سے معاملہ کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہیں۔‘
وزارت خارجہ نے مزید کہا: ’جو بھی چین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ غلط سمت کا انتخاب کر رہا ہے اور سنگین غلط فہمی کا شکار ہے۔‘
امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’دیگر ممالک کئی دہائیوں سے امریکہ کے خلاف محصولات کا استعمال کر رہے ہیں۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم ان ممالک کے خلاف یہی طریقہ آزمائیں۔‘
ٹرمپ نے الزام لگایا کہ ’یورپی یونین، چین، برازیل، انڈیا، میکسیکو، کینیڈا اور بے شمار دیگر ممالک ہم پر بہت زیادہ محصولات عائد کرتے ہیں، جو ہمارے محصولات سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ سراسر غیر منصفانہ ہے۔‘
ان کے بقول: ’چین ہماری مصنوعات پر جتنے محصولات لگاتا ہے، وہ ان محصولات سے دوگنا ہیں، جو ہم ان پر لگاتے ہیں۔‘
چین کی وزارت تجارت نے منگل کو کہا کہ ’واشنگٹن کے یکطرفہ محصولات عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں اور چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی تعاون کی بنیاد کو کمزور کر رہے ہیں۔‘
گذشتہ ماہ چین نے امریکہ کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں باضابطہ شکایت درج کروائی تھی، جس میں امریکہ پر تجارتی اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔
2018 میں ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران چین کے بڑے تجارتی منافعے کے خلاف محصولات کے نفاذ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات شدید کشیدہ ہو گئے تھے۔
دو سال جاری رہنے والی تجارتی جنگ نے عالمی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچایا کیونکہ اربوں ڈالر مالیت کی اشیا پر جوابی محصولات کے باعث عالمی سپلائی چین متاثر ہوئی۔
جو بائیڈن کے دور میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات کچھ حد تک معمول پر آ گئے تھے لیکن ٹرمپ کی جانب سے دوبارہ محصولات کے نفاذ کے بعد ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ’امریکہ چین کی جارحیت کو روکنے، چین کی غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں سے نمٹنے، چین کی بدنیتی پر مبنی سائبر سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور چین کی عالمی سطح پر فینٹینائل کی سمگلنگ ختم کرنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔‘
© The Independent