کرکٹ کا کوئی بھی بڑا مقابلہ ہو سمجھیں میدان میں کھیلنے والے کھلاڑیوں سے زیادہ ٹی وی چینلز پر لگتا ہے ایک دوسرے سے مقابلے کی دوڑ کا آغاز ہوگیا ہے۔
اس کا اندازہ پاکستان میں جاری چیمپیئنزٹرافی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جس ٹی وی چینل کا رخ کیا جائے وہاں آپ کو وسیع و عریض سیٹس کے ساتھ چمکتے دمکتے اینکرز پرجوش انداز میں ملیں گے۔
سابق اور کچھ موجودہ کھلاڑی ان اینکرز کے ساتھ بیٹھ کر ایسے ایسے ماہرانہ تجزیہ کر رہے ہیں کہ دل میں یہ خواہش جاگ اٹھتی ہے کہ کاش یہ مفید مشورے کھلاڑی بھی سن لیں تو ٹیم کی قسمت ہی بدل جائے۔
بے چارے یہ کرکٹ ماہرین اپنے تمام تر تجربات کا نچوڑ بیان کر دیتے ہیں لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں تک رینگے۔
یہ اور بات ہے کہ جب یہ کھلاڑی خود کھیل رہے ہوتے تو کہانی وہی ہوتی جو اس وقت پاکستانی ٹیم اور اس کے کھلاڑیوں کی ہے۔
بالکل ایسے ہی جب انڈیا کے خلاف کوئی میچ ہو تو سابق کھلاڑیوں کے مشورے اور تجاویز سنا کریں۔ کوئی کہتا ہے کہ دباؤ نہ لیں، یہ کریں وہ کریں، سنگل ڈبل پر توجہ دیں، نیچرل کھیلیں۔
بالخصوص اگر عالمی کپ کا ایونٹ ہو تو اس میں ان سابق کھلاڑیوں کا بیانیہ اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔
اب کوئی معصومانہ سوال یہ بھی کردے کہ بھیا جب آپ کھیل رہے ہوتے تھے یا پھر آپ کپتان تھے تو پھر آئی سی سی کے کسی مقابلے میں پاکستان کیوں بھارت کو زیر کر نہ پایا؟
ہم پاکستانیوں کا چیمپیئنز ٹرافی کا بخار تو اتوار کو انڈیا کے ہاتھوں یکطرفہ شکست کے بعد اتر ہی چکا ہے لیکن اگر آپ کو اب فرصت ملے تو کاغذ قلم سنبھال کر ٹی وی چینلز کی سرفنگ ضرور کیجیے گا۔
حسب روایت درجن بھر سے زیادہ ایسے پروگراموں کا نظارہ ملے گا جو ان دنوں چیمپیئنز ٹرافی پر باقاعدہ شوز کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ شوز میچ سے پہلے اور بعد میں ہی نشر نہیں ہوتے بلکہ میچ کے دوران بھی ماہرین ہر گیند پر اپنی ماہرانہ رائے دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ وہ کون سے بھولے بادشاہ قسم کے ناظرین ہوتے ہوں گے جو میچ چھوڑ کر ان ماہرین کو سنتے ہوں گے۔
ماہرین میں بھی کچھ ایسے چہرے ہوں گے جوکسی بھی بڑے مقابلے سے پہلے بھولی بسری یاد بنے ہوتے ہیں، کچھ ایسے بھی جن کا کرکٹ کیریئر انتہائی مختصر رہا ہوگا جنہیں پھر سے ٹی وی سکرین پر آپ دیکھتے ہیں اور اس کے بعد ان میں سے کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پس منظر میں چلے جاتے ہیں جبکہ کچھ اپنے بے لاگ تبصروں کی وجہ سے ایسے مشہور ہوتے ہیں کہ تواتر کے ساتھ آنے لگتے ہیں بلکہ کچھ کی تو ایسی لاٹری کھلتی ہے کہ انہیں ٹیم میں واپسی کا ٹکٹ بھی مل جاتا ہے اور وہ ماہر اور تجزیہ کار کے بجائے پھر سے ٹیم سکواڈ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پرانے کھلاڑی اس لیے بھی کرکٹ ٹیم اور بورڈ پر تنقید کرتے ہیں تاکہ انہیں کوئی عہدہ مل جائے۔
یخ بستہ سٹوڈیو میں بیٹھے ان ماہرین کو ’ہیکل اینڈ جیکل‘ کہہ کر بھی پکارا گیا لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس نے ’ہیکل اینڈ جیکل‘ کا یہ نام دیا وہ خود حالیہ برسوں میں ان میں سے ایک کے ساتھ اپنے تجزیے دینے میں مصروف ہے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کئی کھلاڑی بطور ماہر ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر ٹیم اور کھلاڑیوں کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہوتے ہیں اور ایسا نقشہ کھینچ رہے ہوتے ہیں کہ خیال ہوتا کہ اگر انہیں کوئی ذمے داری مل جائے تو ٹیم کی تو جیسے کایہ ہی پلٹ جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ان ہی تجزیہ کاروں میں سے ایک دو کو تو عہدہ بھی ملا لیکن ان کے کوچ یا سلیکٹرز بننے کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں کی روش نہ بدلی۔
کرکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کھلاڑی بھی پچ پر ڈٹے رہنے کی تلقین کررہے ہوتے ہیں جن کا میدان میں آنا اور پھر جانا بس چند منٹس کی بات ہوتا تھا۔
اسی طرح سنگل ڈبل لینے کی گردان ایک ایسے کھلاڑی بھی کررہے تھے جو خود ’ٹک ٹک‘ کے نام سے مشہور تھے۔
ایک عجیب سی روایت یہ بھی عام ہوچکی ہے کہ پاکستا ن اور بھارت کا جب بھی میچ ہو تو سرحد کے دونوں طرف رہنے والے تماشائیوں کا لہو گرمانے کے لیے خصوصی نشریات پیش کی جائے۔
ایک جانب پاکستانی اینکر اور کھلاڑی ہوتے ہیں تو دوسری جانب بھارتی۔ دونوں طرف سے شعلہ بیانی ہوتی ہے۔ لگتا ہے گویا جنگ کا سماں ہے۔
اس موقع پر کہیں سے ٹاکرا، تو کہیں دنگل۔ کہیں ہر لمحہ پرجوش تو کہیں زور کا جوڑ تو کہیں بڑا مقابلے کا شور بلند ہوتا ہے۔
گذشتہ چار پانچ سال سے پاکستانی ٹیم کی حالت تو بہت پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل ان پروگراموں کو دیکھنے میں لطف آتا تھا۔ پاکستانی مہمانوں کے دعوے بھی دل کو بھلے لگتے تھے۔ بالخصوص ہمارے جیسوں کو جنہوں نے 90 کی دہائی میں پاکستانی ٹیم کا عروج دیکھا ہے جب بھارت سے مقابلے یکطرفہ ہوتے تھے۔
جب باقاعدہ یہ تاکید کی جاتی تھی کہ کمزور دل والے یہ میچ نہ دیکھیں اور اگر کبھی شکست کا غم سہنا پڑتا تو یقین جانیں کھانا پینا تک چھوٹ جاتا تھا۔
اداسی اور غم کی کیفیت کئی دنوں تک طاری رہتی لیکن اب تو یہ عالم ہے کہ پاکستانی ناظرین اور ہمیں خود بھی میچ سے پہلے یہ علم ہوتا ہے کہ میدان تو بھارت ہی مار لے گا لیکن کچھ ’انہونی‘ یا ’معجزے‘ ہونے کی امید کے ساتھ ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے رہتے ہیں۔
لیکن آفرین ہے پاکستانی ٹی وی چینلز پر جو ہر بار ایسی منظر کشی یا زاویے سے خبریں اور تجزیے پیش کرتے ہیں کہ جیسے دونوں ٹیموں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے والا ہے۔
ان پروگراموں کے ذریعے ہر بار پاکستانی ٹیم کے غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے جو میچ والے دن بھارت کے سامنے ’پھس‘ ہوجاتے ہیں۔
یقین جانیں اب تو اس نوعیت کے پروگرامز کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی اینکرز اور ماہرین اپنا ہی مذاق اڑا رہے ہیں۔
بھارتی کرکٹ ٹیم شکست سے سبق سیکھ کر کارکردگی میں نکھار لائی ہے۔ وہاں کے نیوز چینلز میں اس پر رپورٹس نہیں بنتیں کہ ٹیم نے آج کے دن عالمی کپ یا چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی۔
ماضی کو بھول کر مستقبل کی منصوبہ بندی پر توجہ ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ٹیم کامیابی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی اینکرز اور ماہرین کے طنز کے نشتر چھبتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، خاص کر جب وہ یہ کہیں کہ پاکستانی ٹیم بھارت سے جیت نہیں سکتی اور یہ حقیقت میں ایسا ہو اور ہو بھی جائے۔
پاکستان میں نشر ہونے والے ان کرکٹ پروگراموں میں ناظرین کو تفریح دینے کی غرض سے سابق کھلاڑیوں یا سیاست دانوں کی ڈمی بھی بٹھا دی جاتی ہے جو بغیر سکرپٹ کے جو من میں آتا ہے بول دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات قابل گرفت بات بھی سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ایک ٹی وی شو میں رمیز راجا کی موجودگی میں ویوین رچرڈز پر نسلی جملے ادا کیے جس پر ان کی بیٹی نے شدید اعتراض کیا تھا۔
تاہم وسیم اکرم اور فخر عالم کا سپورٹس شو واقعی قابل تعریف ہے جس میں کھلاڑیوں کے کھیل کو نکھارنے کے لیے مثبت تنقید کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔
اس پروگرام کی مقبولیت تو بھارت تک میں ہے۔ اس بار چیمپیئنز ٹرافی کے موقع پر وسیم اکرم، فخر عالم، وقار یونس کے ساتھ ساتھ دو بھارتی کھلاڑی اجے جڈیجہ اور نکھل چوپڑا بہترین انداز میں ’ڈریسنگ روم‘ نامی شو پیش کر رہے ہیں۔
ان بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ کوئی لفظی جنگ نہیں ہو رہی بلکہ کھلاڑیوں کی تکنیک اور کھیل پر غیر جانبدارنہ تبصرے سب میں پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔
یہ تو طے شدہ ہے کہ تبصروں اور تجزیوں سے پاکستانی ٹیم پرنہ پہلے کوئی فرق پڑا تھا اور نہ پڑے گا۔
پاکستانی ٹیم میدان میں وہی کرے گی جو اس نے کرنا ہوگا۔ کسی کا دل ٹوٹے یا امیدوں پر پانی پھرے۔ ماہرین کے پینل بھی بدل جائیں گے لیکن کاش پاکستانی ٹیم کے حالات جوں کے توں نہ رہیں۔ کوئی ایک دور تو ایسا آئے جب نقار خانے میں طوطی کی آواز پر کوئی تو کان دھرے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔