پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعے کو کہا ہے کہ ’انہوں نے آئین سازی کے عمل کو ایک ماہ تاخیر کا شکار کیا۔ اس میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ حکومت کے پاس نمبرز پورے ہیں تو وہ مزید کتنا انتظار کریں گے؟‘
مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’آئیڈیل صورت حال یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئین سازی کریں۔‘
ان کے مطابق: ’وزیر قانون نے کہا ہے کہ اس کے باوجود کے حکومت کے پاس نمبرز پورے ہیں، ہم آج بھی سیاسی جماعتوں کو سپیس دے رہے ہیں۔ ہم کب تک حکومت سے امید رکھ سکتے ہیں؟ ہماری جماعت کا زور ہے کہ کم از کم سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے بنے۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’حکومت نے جوڈیشل ریفارمز سیاسی جماعتوں کے سامنے رکھے اور حتمی فیصلہ کمیٹی کے سامنے رکھے گی۔‘
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’یہ ترامیم جلد بازی میں نہیں ہونی چاہیے۔ اگر پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ جلدبازی نہ ہو تو بامعنی مذاکرات کرے۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی یا حکومت کے ڈرافٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں۔ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو آپ بیٹھ کر بات کریں۔ اپوزیشن جماعتوں کو پیغام دینا چاہوں گا کہ اگر وہ ٹائم فریم پر کھیل رہے ہیں تو اتنا وقت نہیں دیا جا سکتا۔‘
ان کے مطابق: ’پیپلز پارٹی کا ڈرافٹ ایک ہفتے سے زائد عرصے سے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کو دیا گیا تھا تاہم انہوں نے ہمیں کوئی ڈرافٹ نہیں دیا۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اگر ان کے پاس پیپلز پارٹی کے نمبر آ جاتے ہیں تو ترامیم کی جا سکتی ہیں۔‘
مجوزہ آئینی ترامیم: ’مسودہ پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا‘
دوسری جانب خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر کمیٹی روم کے اجلاس سے باہر آئے تو انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ’پارٹی نے کمیٹی کے سامنے اپنی رائے رکھی ہے، اب اس پر مزید اتفاق رائے بنے گا۔‘
عامر ڈوگر نے کہا ’حکومت کی جانب سے دیے گئے ڈرافٹ میں کئی ابہام ہیں، حکومت جو کرنا چاہتی ہے اسے کمیٹی کے سامنے واضح طور پر پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کمیٹی کی مزید نشستیں ہوں گی۔ اتنی بڑی آئینی ترمیم کے لیے وقت چاہیے، اس پر ابھی بات چل رہی ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنما نےمزید بتایا کہ انہیں ’آج ہی مجوزہ آئینی ترامیم کے ڈرافٹ ملے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ڈرافٹ میں وضاحت ہے جبکہ حکومتی ڈرافٹ میں وکلا کے ساتھ نشستوں کے بعد شامل کی گئی تجاویز اور ان کے اپنے نکات شامل ہیں۔‘
عامر ڈوگر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام کام مشاورت سے ہو اور کسی فرد واحد کی حمایت اور قوم کے مفاد کے برعکس نہ ہو۔
’اپوزیشن چاہتی ہے کسی جماعت اور رہنما یعنی عمران خان کو ٹارگٹ نہ کیا جائے۔ آئین میں ترمیم کوئی بری چیز نہیں بلکہ اس سے چیزیں مزید بہتر ہوتی ہیں۔‘
ادھر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’کوشش ہے کہ اگر حکومت نے اپوزیشن کی ترامیم قبول کر لیں تو شاید کسی مسئلے کے حل تک پہنچ جائیں۔‘
اجلاس میں جانے سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا وہ دعا کرنے جا رہے ہیں کہ بہتری ہو، یقین رکھتا ہوں کہ دعاؤں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کہ ’الیکشن کمیشن نے آپ کے خطوط کا جواب نہیں دیا؟‘ پر سپیکر نے کہا ’جواب آ جائے گا، میں سب کے ساتھ رابطے میں ہوں۔‘
جب اجلاس ختم ہوا تو پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خصوصی کمیٹی کا اگلا اجلاس کل دن ساڑھے 12 بجے ہو گا۔‘
آج ہی وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نزیر تارڑ نے کہا ہے ’کمیٹی کے اجلاس میں کافی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ ہیجان کی جو کیفیت پیدا کی گئی تھی وہ کم از کم ختم ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق: ’ترامیم میں جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے اور فارمیشن کیا ہونی چاہیے اور آئینی عدالت کے قیام اور ججز کی ٹرانسفر کیسےہو گی، اس سے متعلق چیزیں ہیں۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن سے اپنی تجاویز شیئر کرنے کا کہا ہے۔‘
جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’حکومت نے آج پہلی مرتبہ اپنا ڈرافٹ ان کے ساتھ شیئر کیا ہے، اب حکومت سے بات چیت شروع ہو گی۔
’پیپلزپارٹی کی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں، پی پی پی اور جے یو آئی آپس میں بات بھی کریں گے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے ڈرافٹ سے متعلق سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’کوشش کریں گے کہ ایک ڈرافٹ پر اتفاق ہو، ہم اپنا ڈرافٹ پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کریں گے تاکہ اتفاق رائے حاصل ہو سکے۔ ہم حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر اتفاق رائے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘
فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’کسی قسم کی عجلت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے 18ویں ترمیم پر مشارت میں نو مہینے گزارے تھے، اگر آج کوئی کہتا ہے کہ ہمیں نو گھنٹے یا نو روز بھی نہیں دے سکتے تو یہ اچھی بات نہیں۔‘
مجوزہ مسودے میں کیا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل ہونے والے مسودے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے آرٹیکل 175 اے میں آئینی عدالت کا قیام شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیپلز پارٹی کی جانب سے فراہم کیے گئے مسودے کے مطابق ’آئینی عدالت وفاق میں جبکہ صوبوں کی سطح پربھی ایک ایک آئینی عدالت ہونی چاہیے۔ ترمیم کے مطابق ہائی کورٹس ذیلی کورٹس کی اپیل سن سکیں گی۔‘
مسودے میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے۔
’ججز کی تعیناتی کے لیے آئینی کمیشن آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے جبکہ صوبائی سطح پر ججز کی تعیناتی کا عمل بھی آئینی کمیشن آف پاکستان دیکھے گا۔‘
مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’آئینی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) چیف جسٹس اور دو سینیئر ججز پر مشتمل ہو گی جن میں سپریم کورٹ کا ایک ریٹائرڈ جج یا چیف جسٹس کا نامزد نمائندہ ہو گا۔ سی سی پی میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی شامل ہوں گے۔‘
مسودے کے مطابق سی سی پی کا کوئی بھی رکن جج کے لیے نام تجویز کر سکتا ہے۔ اس میں آرٹیکل 209 کےتحت ججز کوعہدہ سے ہٹانے کا طریقہ کار بھی واضع کیا گیا ہے۔
’سی سی پی چیف جسٹس، دو سینیئر ججز اور دو صوبائی آئینی عدالت کے ججز پرمشتمل کمیشن کوججزہٹانے کا اختیار ہو گا۔ سی سی پی میں پاکستان بارکونسل کا نمائندہ، دو اراکین سینیٹ اور اور دو قومی اسمبلی کے اراکین ہوں گے۔