میں نے موسم سرما کی تعطیلات میں ملائیشیا کی سیاحت کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ کچھ ماہ پہلے ٹکٹ خریدا، ای ویزہ حاصل کیا اور تعطیلات شروع ہوتے ہی ملائیشیا آ گئی۔
ملائیشیا کی سیاحت کے لیے سات سے 10 دن کافی ہیں۔ میں نے اپنے دورے کے شروع کے کچھ دن ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور اور بقیہ دن دو جزیروں پینانگ اور لنکاوی میں گزارے۔
ملائیشیا میں سال بھر گرم اور مرطوب موسم رہتا ہے۔ کوالا لمپور میں قریباً روزانہ بارش ہوتی ہے۔ ایک دم بادل چھا جاتے ہیں اور بارش ہونے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر میں موسم پھر سے صاف ہو جاتا ہے۔
کوالا لمپور میں میرا ہوٹل ملائیشیا کے مشہور جڑواں میناروں کے پاس تھا۔ یہ ٹاور برج خلیفہ کے افتتاح سے قبل دنیا کی سب سے بڑی عمارت تھے۔
ملائیشیا کی آبادی سوا تین کروڑ سے زائد ہے۔ یہاں ملے، چینی اور انڈین نژاد باشندے آباد ہیں۔ ہر شہر میں لٹل انڈیا کے نام سے علاقے موجود ہیں۔ ان علاقوں میں ایسے لگتا ہے جیسے انڈیا آ گئے ہوں۔
کہیں بھجن بج رہے ہوں گے تو کہیں جنوبی انڈیا کی فلموں کے مشہور گانے۔ ساڑھیاں، سوٹ، مصالحے، سبزیاں، پھل، پانی پوری، مٹھائی، نمکو، یعنی انڈیا کے بازاروں میں بکنے والی ہر چیز وہاں بیچی جا رہی ہوتی ہے۔
مجھے سب سے زیادہ حیران کن یہاں کی مساجد لگیں۔ ان مساجد میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ مسلمان اپنی عبادت کریں اور غیر مسلم انہیں دیکھ کر اسلام بارے سیکھیں۔
غیر مسلموں کے لیے ہر مسجد میں جامنی رنگ کے چغے موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا لباس مکمل یا ڈھیلا ڈھالا نہ ہو تو انہیں مسجد میں داخل ہونے سے پہلے یہ چغے پہننے پڑتے ہیں۔ سیاح مسجد کے مختلف حصوں میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنی تصاویر اتارتے ہیں۔
مساجد کے علاوہ یہاں مندر اور گرجا گھر بھی موجود ہیں۔ وہ بھی عبادت کے ساتھ ساتھ سیاحتی مراکز ہیں۔
ملائیشیا کے لوگ خوش اخلاق ہیں۔ یہاں سکیورٹی کے مسائل نہیں ہیں۔ لوگ رات گئے تک باہر موجود رہتے ہیں۔ خواتین بھی بغیر کسی فکر کے اکیلی بیٹھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اکثر خواتین سر کے گرد سکارف پہنتی ہیں تاہم وہ سکارف ان کی زندگی محدود نہیں کرتا۔
پاکستانیوں کو ملک سے باہر دو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک کھانا دوسرا بیت الخلا میں پانی کی دستیابی۔ یہاں یہ دونوں مسائل ہی موجود نہیں ہیں۔
مجھے ملے کھانا کافی اچھا لگا، لیکن کسی نے پاکستانی کھانا ہی کھانا ہو تو اسے یہاں بہت سے پاکستانی، انڈین، عربی اور ترکش ریستوران مل جائیں گے۔ سڑک کنارے چھوٹے چھوٹے ڈھابے بنے ہوئے ہیں۔ وہاں سے ڈیڑھ سے دس رنگٹ میں اچھا کھانا کھایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملے ناسی قندھار بہت شوق سے کھاتے ہیں، جو چاولوں کی ڈش ہے۔ ابلے ہوئے چاول یا بریانی پر کھانے والے کی پسند کے سالن ڈالے جاتے ہیں۔ چکن، بیف، مٹن، مچھلی، جھینگے، ابلے ہوئے انڈے، گوبھی، بھنڈی اور جانے کیا کیا۔
بیت الخلا میں پانی کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ اکثر یہ انتظام کموڈ کے اندر ہی ہوتا ہے۔
دوسری صورت میں ایک طرف مسلم شاور لگا ہوتا ہے لیکن اس کے آخری سرے پر شاور ہیڈ نہیں ہوتا۔ شاید گھروں میں ہوتا ہو. میرے ہر ہوٹل کے بیت الخلاء میں مسلم شاور بغیر شاور ہیڈ کے تھا۔
پینانگ میں زیادہ تر چینی آباد ہیں۔ یہاں چینی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کے علاقہ جارج ٹائون کو یونیسکو کی طرف سے ثقافتی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی ہر گلی میں سٹریٹ آرٹ موجود ہے۔
پینانگ ہل سے شہر کا نظارہ بہت اچھا لگتا ہے۔ پینانگ آئیں تو پائوں کا مساج ضرور کروائیں۔ اس مساج سے آپ کے سفر کی ساری تھکن دور ہو جائے گی۔
لنکاوی کے ساحل سمندر پینانگ سے زیادہ خوبصورت ہیں، وہاں جائیں تو ساحل سمندر پر کافی وقت گزاریں۔
ملائیشیا سے زیادہ خریداری کی توقع نہ رکھیں۔ یہاں کرنسی مضبوط ہونے کی وجہ سے ہر چیز مہنگی لگتی ہے۔ سستی مارکیٹوں اور بازاروں میں ہمارے سستے بازاروں اور ڈالر، یورو سٹور والا سامان موجود ہے۔ اسے خریدنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں کوئی ایسی چیز ہو جو پاکستان میں نہ ملتی ہو وہ ضرور خریدیں۔
اگر استطاعت ہو تو ملائیشیا زندگی میں ایک دفعہ ضرور جائیں۔ یہاں آباد ہونے کا فیصلہ لوگ اپنی ترجیحات کے مطابق کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے قریب اچھے موسم والے ملک میں اچھی مگر سادی زندگی گزارنی ہو تو ملائیشیا بہترین ہے۔ چین میں چھ سال گزارنے کے بعد مجھے ملائیشیا اپنی رہائش کے لیے مناسب نہیں لگا لیکن یہاں سیاحت کا بہت مزہ آیا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔