2025: پاکستان میں مقیم افغان شہری پھر سے مشکل میں؟

اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صرف ان افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔

نومبر17، 2023 کو کراچی کے مضافات میں ایک سرچ آپریشن کے دوران مبینہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو ایک پولیس وین میں بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم تمام غیر ملکیوں، بشمول افغان شہریوں، کو جون 2024 تک رضا کارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد ملک بدری کے لیے کارروائی کا انتباہ بھی کیا گیا۔

2025 کے آغاز پر ایسی خبریں سامنے آئیں کہ غیر قانونی طور پر افغان شہریوں کے خلاف کارروائی تیز کر دی گئی ہے۔

2024 کے اواخر میں وفاقی حکومت نے فیصلہ بھی کیا تھا کہ اسلام آباد میں 31 دسمبر، 2024 کے بعد سے غیر قانونی طور پر کسی بھی افغان شہری کو رہنے کی اجازت نہیں ہو گی اور جو یہاں رہنا چاہتے ہیں انہیں ضلعی حکومت سے ایک سرٹیفیکیٹ لینا ہو گا۔

اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے نے چھ جنوری کو ایک بیان میں کہا تھا کہ حالیہ دنوں میں تقریباً ’800 افغان شہریوں کو حراست‘ لیا گیا، جن میں ’وہ افراد بھی شامل ہیں جن کے پاس درست ویزا، پروف آف رجسٹریشن (پی او آر)  اور افغان شہری کارڈز (اے سی سی)  موجود ہیں۔‘

اسلام آباد کی انتظامیہ نے اگلے روز ایک بیان میں وضاحت کی کہ صرف ان افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں مقیم ایسے افغان شہری جن کے پاس درست سفری اور قیام کی دستاویزات موجود ہیں، مثال کے طور پر پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز، افغان شہری کارڈز (اے سی سی)، ویزا یا وہ افراد جنہوں نے کسی تیسرے ملک میں آباد ہونے کے لیے اندراج کروا رکھا ہے، انہیں واپس نہیں بھیجا جا رہا۔

صحافیوں اور شہریوں کی گرفتاریوں سے متعلق افغان شہریوں کی تشویش

پاکستان افغان جرنلسٹ فورم کے صدر قمر یوسف زئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حراست کے بعد جن افراد کو ملک بدر کیا گیا ان میں افغان صحافی اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔

قمر کے بقول حال ہی میں جن افغان صحافیوں کو ملک بدر کیا گیا ان کی ’زندگیوں کو بھی خطرات‘ لاحق ہو سکتے ہیں، کیوں کہ طالبان حکومت سے قبل ان کا میڈیا میں کردار خاصا متحرک رہا۔

’کئی ایسے افغان خاندان بھی ہیں جن کے بعض افراد یہاں رہ گئے ہیں اور بعض کو واپس بھیج دیا گیا۔ اس طرح وہ منقسم ہو گئے۔‘

ایک افغان شہری خان واہدی کہتے ہیں کہ حالیہ ’گرفتاریوں سے افغان شہری خوف و ہراس کا شکار ہیں‘ کیوں کہ ان بقول ان سے سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔

تاہم اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کی دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’تلاشی اور چھان بین کی کارروائیوں کے دوران انتظامیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قانون پر عمل درآمد ہو اور دستاویزات نہ رکھنے والے غیر ملکی باشندوں کو اپنی قانونی حیثیت درست کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔‘

اسلام آباد انتظامیہ نے کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر بتایا کہ ’2025 میں اسلام آباد سے مجموعی طور پر 183 غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کیا گیا جب کہ دو غیر قانونی باشندے حراستی مراکز میں ہیں۔‘

بیان کے مطابق: ’یہ بات اہم ہے کہ ملک بدر کیے گئے ان افراد کے پاس پاکستان میں قیام کے لیے کسی قسم کی قانونی دستاویزات موجود نہیں تھیں۔

’حکام قانون کے عین مطابق کارروائی کر رہے ہیں اور صرف انہی افراد کو ہدف بنایا جا رہا ہے جو درست دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہے۔‘

وفاقی حکومت پہلے ہی واضح کر چکی تھی کہ افغان شہری 31 دسمبر، 2024 کے بعد اسلام آباد کی حدود میں نہیں رہ سکیں گے، اگر ان کو رہنا ہو گا تو ان کو ڈپٹی کمشنر آفس سے این او سی لینا پڑے گا۔

اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نومبر 2024 میں کہا تھا کہ ’ہم ان (افغان شہریوں) کو ہر طریقے سے اطلاع کریں گے، لیکن 31 دسمبر کے بعد کوئی افغان شہر این او سی کے بغیر اسلام آباد میں نہیں رہ سکے گا۔‘

افغان سفارت خانے نے رواں ہفتے اپنے بیان میں کہا کہ ’این او سی کے تقاضوں اور اس کے اجرا کا عمل واضح  نہ ہونے کی وجہ سے غیر ضروری گرفتاریوں اور ملک بدری کے پریشان کن واقعات پیش آئے ہیں۔‘

سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ’ملک بدر کیے جانے والے افراد میں 137 ایسے افغان باشندے بھی شامل ہیں جن کے ویزے ختم ہو چکے تھے، لیکن انہوں نے پہلے ہی ان کی تجدید کے لیے درخواست دی ہوئی تھی جب کہ انسانی حقوق اور قیدیوں کی مدد کے لیے قائم تنظیم (شارپ) اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) میں عارضی طور پر رجسٹر افراد کو بھی ملک بدر کیا گیا۔‘

غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کب کی گئی؟

پاکستان کی حکومت نے ستمبر 2023 کو اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی، جن میں غالب اکثریت افغان مہاجرین کی ہے، وہ یکم نومبر سے پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں۔

بعدازاں اس مدت میں 31 دسمبر، 2023 اور پھر 30 جون، 2024 تک توسیع کر دی گئی۔

جون 2024 کے بعد پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو گرفتار کر کے ان کی ملک بدری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، جس بعد گرفتاریوں کے خوف سے بھی لاکھوں افغان پاکستان چھوڑ گئے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں دہائیوں سے مقیم افغانوں کی واپسی کا حالیہ سلسلہ ستمبر 2023 میں شروع ہوا اور 15 دسمبر، 2024 تک سات لاکھ 95 ہزار 607 مہاجرین اپنے وطن واپس جا چکے تھے۔

قانونی طور پر مقیم افغانوں کے (پی او آر کارڈز) میں جون 2025 تک توسیع

جولائی 2024 میں حکومت نے ملک میں قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز کی مدت میں جون 2025 تک کی توسیع کر دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ آر سی‘ کے مطابق پی او آر کارڈز رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد تقریباً 14 لاکھ ہے۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد 1979 میں افغانستان پر سابق سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوئی اور اس وقت سے لاکھوں افغان مہاجرین یہاں مقیم ہیں۔

2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کی حکومت کے بعد ایک بار پھر افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے جن میں سے بہت سے ایسے تھے، جنہوں نے اسلام آباد کے راستے دیگر ممالک کا سفر کرنا تھا۔

حالیہ مہینوں میں پاکستان حکومت کے عہدے دار یہ بھی کہتے رہے کہ ملک میں ہونے والے کئی ’دہشت گرد‘ حملوں میں افغان شہری ملوث تھے اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی رہی۔

لیکن افغان طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کے کردار کی نفی کرتے ہیں۔

سرحد پار سے سکیورٹی خدشات کے علاوہ افغان شہریوں کی ملک بدری بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی ایک وجہ بنی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان