امریکہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی سٹیو وٹکوف ایرانی حکام سے 26 اپریل کو مسلسل تیسرے ہفتے ملاقات کریں گے۔
وٹکوف، جو ٹرمپ کے بزنس مین دوست اور اب ان کے عالمی سطح پر مذاکرات کار بن چکے ہیں، نے گذشتہ ہفتے روم میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کی تھی جہاں دونوں نے پیش رفت کے بارے میں بتایا اور تکنیکی ٹیموں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وٹکوف خود ہفتے کو عمان میں ہونے والے تکنیکی مذاکرات میں شرکت کریں گے، جہاں انہوں نے 12 اپریل کو عباس عراقچی سے پہلی بار ملاقات کی تھی۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے صحافیوں کو بتایا کہ ’مذاکرات کا آئندہ دور ہفتے کو عمان میں ہو گا اور یہ تکنیکی ٹیموں کی پہلی ملاقات ہو گی۔ خصوصی ایلچی وٹکوف بھی اس میں موجود ہوں گے۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ مائیکل اینٹن، جو محکمہ خارجہ میں پالیسی پلاننگ کے سربراہ ہیں، امریکہ کی جانب سے تکنیکی امور کی قیادت کریں گے۔
دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعرات کو کہا کہ وہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ جانے کے لیے تیار ہیں۔
یہ وہ ممالک ہیں جو امریکہ کے اتحادی ہیں اور 2015 کے جوہری معاہدے کا حصہ بھی تھے، اور جنہوں نے ٹرمپ کو اپنی پہلی مدت میں معاہدے سے باہر نکلنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
عراقچی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ وہ ’صرف جوہری معاملے پر ہی نہیں بلکہ باہمی دلچسپی اور تشویش کے ہر شعبے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘
یورپی طاقتوں کے ایران پر پہلے سے زیادہ سخت مؤقف اور اسرائیلی دباؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے پاس ’خصوصی مفادات گروپوں کے اثرات سے باہر نکل کر نیا راستہ اختیار کرنے کا موقع ہے۔‘
ٹرمپ نے 2018 میں سابق صدر براک اوباما کے دور میں ہونے والے جوہری معاہدے کو منسوخ کر کے سخت پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے سفارت کاری کو ترجیح دینے کا عزم ظاہر کیا اور اسرائیل کو اس ملک پر فوجی حملے سے باز رہنے کی تلقین کی جسے وہ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان کرسٹوف لیموئن نے اے ایف پی کو بتایا کہ پیرس یہ دیکھنا چاہے گا کہ ’کیا ایرانی وزیر (خارجہ) کے اس اعلان کے بعد عملی پیش رفت بھی سامنے آتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ فرانس ’ایران کے ساتھ جوہری معاملے پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے ہر لحاظ سے تیار ہے۔‘
جرمنی اور برطانیہ نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دسمبر میں تینوں یورپی ممالک نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھایا تو 2015 کے معاہدے کے تحت ’سنیپ بیک‘ میکانزم کو متحرک کرنے کا امکان موجود ہے۔
اگر یہ میکانزم فعال ہو جائے تو ایران کی عدم تعمیل کی صورت میں اقوام متحدہ کی پابندیاں خود بخود دوبارہ نافذ ہو جائیں گی۔ اس آپشن کو استعمال کرنے کی مدت اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس آپشن کے استعمال سے متعلق فیصلہ کریں۔
ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اگر یہ میکانزم فعال ہوا تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔