افغان طالبان کے سیاسی وفد اور امریکہ کے افغانستان کے لیے ایلچی زلمے خلیل زاد کی ملاقات نے دونوں فریقین کے درمیان تعطل شدہ امن مذاکرات کے امکانات کو روشن کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا کہ افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کے دورے کے دوران اسلام آباد میں موجود امریکی صدر کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے جمعے کے روز ملاقات کی۔
روئٹرز نے نامعلوم پاکستانی ذرائع کے حوالے سے ملاقات کو ’غیر رسمی‘ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اسے امن مذاکرات کی بحالی سے تعبیر نہ کیا جائے۔
دوسری جانب طالبان اور امریکی حکام کی جانب سے اب تک جمعے کے روز ہونے والی ملاقات کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان کئی مہینوں سے امن مذاکرات جاری تھے تاہم گذشتہ مہینے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کے خاتمے کا عین اُس وقت اعلان کیا جب دونوں فریقین ایک معاہدے پر متفق ہو چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان طالبان کا 12 رکنی نمائندہ وفد جمعرات (تین اکتوبر) کی شام اسلام آباد پہنچا تھا، جس کی قیادت افغان طالبان کے دوحہ میں واقع سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔
جمعرات ہی کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خیل زاد بھی پاکستان کے وفاقی دارالحکومت پہنچے۔
طالبان کے وفد نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ دیگر پاکستانی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔
طالبان کے قریبی ذرائع کے مطابق افغان طالبان، امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی سے متعلق بہت پر امید ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے فوراً بعد سامنے آنے والے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے تقریباً تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔‘
ذرائع کے مطابق: ’طالبان رہنماؤں نے افغانستان میں کام کرنے والے بین الاقوامی امدادی اداروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں امریکہ کے جانے کے بعد تعاون اور مدد کی یقین دہانیاں کروائی ہیں۔‘
ذرائع نے مزید بتایا کہ افغان حکومت کے بعض وزیر اور گورنر بھی طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
افغان امور پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کار طالبان وفد اور امریکی ایلچی کے درمیان غیر رسمی ملاقات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے امن مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کی طرف ایک قدم قرار دیتے ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’اس وقت دونوں فریق پرتشدد سرگرمیاں کم کرنے سے متعلق پاکستانی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ طالبان مکمل جنگ بندی اور افغان حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے رضامند نہیں ہیں اور یہ دونوں امریکہ کی جانب سے اہم مطالبات یا خواہشات ہیں۔ ایسی صورت حال میں تشدد کی تعداد کو کم کرنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر افغانستان میں پُرتشدد واقعات میں کمی واقع ہو جاتی ہے تو امریکہ کو مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک اچھی وجہ مل جائے گی۔
دفاعی امور کے ماہر جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’دونوں کو مذاکرات کی میز پر تو بہرحال آنا ہی پڑے گا، گو کہ اس میں مشکلات بہت زیادہ ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’طالبان کے سخت رویے کی وجہ سے امریکہ کے لیے مذاکرات کا عمل دوبارہ سے شروع کرنا یقیناً مشکل ہو گا لیکن اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔‘
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’طالبان ملیشیا اپنے آپ کو افغانستان کی حکومت سمجھتے ہیں۔ وہ کابل حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہی ان کی ہٹ دھرمی اور سخت رویے کا ثبوت ہے۔‘
ماہرین زلمے خلیل زاد اور طالبان وفد کی ایک وقت میں اسلام آباد موجودگی کو بھی مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
استاد اور تجزیہ کار پروفیسر رفعت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’یہ اتفاق تو نہیں ہو سکتا کہ دونوں فریقین ایک ہی وقت میں اسلام آباد آئیں۔ اس تمام معاملے کے پیچھے کوششیں نظر آرہی ہیں کہ دونوں کو قریب لایا جائے اور امن مذاکرات بحال ہو سکیں۔‘
افغان امور پر لکھنے والے صحافی مشتاق یوسفزئی نے بھی اس تھیوری سے اتفاق کیا اور کہا کہ ’ طالبان اور زلمے خلیل زاد دونوں چاہتے ہیں کہ امن مذاکرات دوبارہ سے شروع ہو جائیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک ہی وقت پر اسلام آباد میں موجود ہیں۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا۔‘
ان کے خیال میں امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ طالبان کو بھی محفوظ راستہ دینے کے لیے تیار ہے۔
کیا ٹرمپ طالبان سے دوبارہ مذاکرات کے لیے راضی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں کہ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ مذاکرات کے لیے راضی ہو جائیں گے؟ رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا: ’صدر ٹرمپ نے تو گذشتہ مہینے کے دوران ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ دونوں فریقین مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘
تاہم جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا وہاں امن کی واپسی کا ضامن نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے کہا: ’امریکہ خود بھی جانا چاہتا ہے اور اسے جانا بھی چاہیے۔ لیکن افغانستان میں موجود جنگجو گروہ اپنے درمیان کے اختلافات کیسے دور کر سکیں گے؟ اگر یہ اختلافات دور نہیں ہوتے تو وہاں جنگ جاری رہے گی اور پھر پڑوسیوں کو بھی افغانستان میں دخل اندازی کا موقع ملے گا۔‘
انہوں نے طالبان رہنماؤں کو بدلتی دنیا کے تقاضوں کے مطابق اپنی سیاست تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔
جنرل (ر) طلعت مسعود نے اس حوالے سے کہا کہ طالبان کو نہ صرف امریکہ بلکہ افغان حکومت سے بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے تاکہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد ان کے ملک میں امن لوٹ سکے۔
امریکہ اور طالبان کو قریب لانے کی پاکستانی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر رفعت حسین نے کہا: ’افغانستان میں امن اور امن مذاکرات سب سے زیادہ پاکستان کے لیے اہم ہیں۔ پاکستان نہیں چاہے گا کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا عمل مکمل طور پر ختم اور افغان سرزمین پر جنگ جاری رہے۔‘
پروفیسر رفعت حسین کے خیال میں امریکہ پاکستان کی خواہش اور اہمیت سے بخوبی واقف ہے اور اسی لیے واشنگٹن سے پاکستان کے حق میں کئی بیانات دیکھنے میں آئے ہیں۔