وہ علی الصبح مولوی منظور احمد کی تلاش میں ان کے گھر آئے۔ یہ دو گاڑیوں میں سوار پانچ بندوق بردار تھے، جنہوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ مولوی منظور بندوق برداروں کی فائرنگ پہلے صرف اتنا کر سکے کہ اپنی بیٹی کو وہاں سے ہٹا دیا۔
مولوی منظور بتاتے ہیں، ’یہ بہت کم فاصلے سے کی جانے والی فائرنگ تھی۔ مجھے پیٹ اور کاندھے پر گولی لگی۔ ایک نقاب پوش نے میرے سر پر بندوق رکھی تاکہ مجھے ختم کیا جا سکے لیکن میں نے بندوق کی نالی پکڑ کر گھما دی۔ وہ ٹریگر دبا چکا تھا۔ میرے اللہ اور موٹی پگڑی نے مجھے بچایا۔ میری ٹانگیں ناکارہ ہو چکی تھیں۔ مجھے لگا اب زندہ رہنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا میں مر چکا ہوں۔ میری انتڑیاں میرے سامنے بکھریں پڑی تھیں۔ کچھ لوگ میری مدد کرنے کو آئے لیکن مجھے بے ہوش ہونے سے پہلے صرف اتنا یاد ہے کہ میری بیٹی رو رہی تھی اور اس کے سر میں مٹی تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی میں مر چکا ہوں۔‘
مولوی منظور نے پہلی بار کسی غیر ملکی صحافی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان پر ہونے والا قاتلانہ حملہ کیسے کیا گیا اور ان کی موجودہ زندگی میں افغانستان میں جاری وحشیانہ جنگ اور روز مرہ دھمکیوں کا کیا کردار ہے۔
پاکستان کے علاقے چمن میں مولوی منظور پر حملہ کرنے والوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کون ہیں لیکن ان کے اہل خانہ اور دوست انہیں ہسپتال لے کر جاتے وقت جانتے تھے کہ حملہ کس نے کیا۔
ڈاکٹروں کے مطابق اتنی گولیاں لگنے کے باوجود منظور کا زندہ بچ جانا معجزاتی تھا۔ وہ اپنا عہدہ چھوڑ چکے ہیں لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک اور حملے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے تو وہ اپنے آبائی وطن افغانستان فرار ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اس سے پہلے بھی کئی بار سرحد پار کر چکے تھے۔ پہلے روس سے لڑتے ہوئے اور پھر امریکہ اور برطانیہ سے جنگ کرتے ہوئے، لیکن اس بار وہ جانتے تھے کہ وہ واپس نہیں جا سکتے۔
مولوی منظور، طالبان کے اُن بہت سے اہم رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو حالیہ سالوں میں اپنا عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔ وہ اب طالبان کی جنم بھومی قندھار کے ایک خفیہ مقام پر رہتے ہیں۔
وہ امریکی حملے سے پہلے یہیں ملا عمر کے لیے کام کرتے تھے اور افغان حکومت کے لیے کام کرنے کی پیشکش ٹھکرا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے انہیں سی آئی اے کے لیے بھی کام کرنے کی پیشکش کی گئی لیکن سابق جنگجو اب بندوق کے بدلے ووٹ کی طاقت سے پارلیمنٹ کا رکن بننا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں موجود ان کے سابق طالبان ساتھیوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ وہ انہیں میدانِ جنگ میں واپس آنے اور جنگجوؤں کی رہنمائی کرنے کا کہتے ہیں۔ ان کے اور پاکستانی تنظیم کے درمیان غلط فہمیاں ختم ہو چکی ہیں اور انہیں بتایا گیا کہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔
طالبان کے اندر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ مولوی منظور کو قتل کرنا ان جنگجوؤں کے ردعمل کا باعث بنے گا جو ان کی قیادت میں لڑ چکے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ اس اہم وقت میں ان کا افغانستان میں رہنا فائدہ مند ہو سکتا ہے، جب طالبان اقتدار کے اتنے قریب کبھی نہیں رہے جتنے وہ 18 سال پہلے تھے۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد ختم ہو چکے ہیں۔ جب بھی یہ مذاکرات شروع ہوں گے، ٹرمپ اگلے انتخابات سے پہلے اپنی فوج کو وطن واپس لے جانے کے لیے بے چین ہوں گے تاکہ وہ یہ دعویٰ کر سکیں کہ انہوں نے امریکی تاریخی کی سب سے طویل جنگ ختم کردی۔
2010 میں پاکستان میں قید رہنے والے ملا عبدالغنی برادر بھی پاکستانی اداروں کے علم میں لائے بغیر حامد کرزئی حکومت سے مذاکرات کی کوشش کر چکے ہیں۔ انہیں دس سال بعد ان مذاکرات میں کردار ادا کرنے کے لیے رہا کیا گیا تھا لیکن طالبان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ طالبان یہ مذاکرات آزادانہ طور پر کریں نہ کہ پاکستانی ریاست کے مفاد کے لیے۔
افغانستان کے عوام کئی سالوں سے خود پر مسلط جنگ کو بھگت رہے ہیں (تصویر روئٹرز)
مولوی منظور کی سینیارٹی پر کوئی شک نہیں۔ وہ اُن پہلے جنگجوؤں میں تھے جنہوں نے طالبان میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ کابل، قندھار اور غزنی کے اضلاع کے گورنر بھی رہے۔ وہ ہرات، نمروز، بگدیز اور غور کے فوجی اور پولیس کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ غزنی سے کابل تک آپریشنز کی قیادت بھی کر چکے ہیں۔
منظور، ملا عمر کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور اسامہ بن لادن سے بھی مل چکے ہیں۔ وہ ملا عمر کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’ملا عمر اسامہ بن لادن کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ انہیں حکومت کی مرضی کے بغیر سفر کرنے سے منع کرتے تھے۔ وہ انہیں دوسرے ممالک میں مسئلے پیدا کرنے سے روکتے تھے۔ ہم وہیں تھے اور ہمیں یقین تھا کہ نیویارک کے حملے بن لادن نے نہیں کیے لیکن وہ بہت پیچیدہ صورت حال تھی۔ یہ مغرب تھا جس نے اسامہ بن لادن کو جہاد کا سرخیل بنایا۔ وہ جب افغانستان آئے تھے تو اتنے مذہبی بھی نہیں تھے۔‘
’وہ بیرون ملک زندگی گزار چکے تھے۔ وہ داڑھی منڈواتے تھے جو انہوں نے افغانستان میں رکھنا شروع کی۔ میں ان سے پاکستان میں ملا تھا، جب وہ سوات میں تھے۔ یہ 14 سال پہلے کی بات ہے۔ وہ پاکستان میں افغانستان سے زیادہ خوش تھے لیکن پھر امریکیوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور مار ڈالا۔‘
مولوی منظور طالبان کے دور میں زیادہ تر پس منظر میں ہی رہے۔ انہوں نے تصاویر بھی کم کم ہی بنوائیں۔ شاید اس وجہ سے وہ اپنے دوست خیراللہ خیرخواہ کے انجام سے محفوظ رہے جو چمن سے پکڑے گئے اور پھر 14 سال گوانتاناموبے میں گزارے۔ انہیں 2014 میں رہا کیا گیا۔
وہ ’طالبان پانچ‘ کے اُس گروہ میں شامل تھے جن کی آزادی کو مذاکرات سے مشروط کیا گیا تھا۔ ان کے بدلے 2003 سے پکڑے گئے ایک امریکی فوجی کو بھی رہا کیا گیا تھا۔
خیراللہ دوحہ مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ منظور کے مطابق وہ ایک اچھے انسان ہیں، ملا برادر بھی ان کے دوست اور چمن میں ان کے پڑوسی تھے، لیکن ان کی گرفتاری کے بعد وہ انہیں تب ہی دیکھ سکے جب وہ مذاکرات کے لیے رہا کیے گئے۔
منظور کے مطابق ان پر پاکستانی ادارے کا دباؤ تھا کہ ان کے جنگجوؤں کے لیے ہدف کا فیصلہ وہ کریں گے۔ میں جتنا ٹال سکتا تھا میں نے ٹالا لیکن پھر انہوں نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور مجھے افغانستان واپس آنا پڑا۔ وہ امریکہ کے اتحادی تھے لیکن امریکہ کو شاید یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
منظور جب قندھار پہنچے تو وہ محفوظ نہیں تھے۔ وہ سابق طالبان ساتھیوں سمیت پاکستانی اداروں کا نشانہ بن سکتے تھے جبکہ قندھار میں انہیں جنرل عبدالرزاق اچکزئی سے بھی خطرہ تھا۔
ڈیوٹی پر مامور ایک افغان سکیورٹی اہلکار (تصویر اے ایف پی)
جنرل رازق نے طالبان کے خلاف مہم میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ طالبان ان کے والد اور چچا کو قتل کر چکے تھے تو یہ ان کے لیے ذاتی معاملہ بھی تھا۔ ان کی مہم پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا گیا تھا لیکن انہیں ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا تھا جس نے حالات بہتر کیے۔
منظور کہتے ہیں، ’میرے افغانستان آنے کے تین دن بعد ہی جنرل رازق کو اس بات کا علم ہو گیا تھا۔ میں فوری طور پر کابل چلا گیا۔ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا کیونکہ میں انہیں جانتا تھا۔ ہم ایک ہی قبیلے سے تھے اس لیے قبائلی عمائدین نے ہماری ملاقات کروائی۔ میں قندھار واپس آیا اور جنرل کو خود پر ہونے والے حملے کا بتایا۔‘
’میں نے بتایا کہ میں افغان حکومت کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف اپنی زندگی جینا چاہتا ہوں۔ اگر وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو میں کچھ نہیں کر سکتا، لیکن اگر وہ مجھے قید کرنا چاہتے ہیں تو قندھار میں ہی کریں ورنہ کسی اور جگہ میں مارا جاتا۔‘
منظور کے مطابق ان دونوں کے درمیان ایک اچھا تعلق قائم ہوگیا تھا۔ جنرل رازق انہیں قندھار کا ناظم بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی کیونکہ وہ اپنی دو بیویوں اور 16 بچوں کی حفاظت چاہتے تھے۔
منظور کہتے ہیں انہیں سی آئی اے کے لیے کام کرنے کی پیشکش بھی کی گئی۔ انہیں قندھار میں واقع سی آئی اے بیس بلایا گیا اور اپنے لیے کام کرنے کو کہا گیا۔
منظور کا کہنا ہے، ’میں نے انہیں منع کر دیا کیونکہ میں جنگ اور تشدد سے اکتا چکا تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا سوچتا ہوں تو میں بتایا کہ ہم بھی کئی پاگل اور احمق رہنما بھگت چکے ہیں، اب آپ کی باری ہے۔ انہیں یہ بات مزاحیہ لگی اور انہوں نے قہقہہ لگایا۔‘
ایک امریکی عہدے دار اس ملاقات کی تصدیق کر چکا ہے، لیکن ملاقات کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
کئی حملوں میں بچ جانے کے بعد جنرل رازق گذشتہ اکتوبر طالبان کا نشانہ بن گئے۔ انہیں سکیورٹی گارڈز میں موجود طالبان جنگجو نے قتل کیا جو اسی مقصد کے لیے سکیورٹی فورسز کا حصہ بنا تھا۔ طالبان انہیں ہر قیمت پر قتل کرنا چاہتے تھے۔ طالبان جنگجو کے پاس موقع تھا کہ وہ امریکی کمانڈر جنرل سکاٹ ملر پر گولی چلائے یا جنرل رازق پر اور اس نے جنرل رازق کا انتخاب کیا۔
(مکمل انٹرویو یہاں پڑھا جاسکتا ہے)