پانچ اگست کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد مسلسل کرفیو کے نتیجے میں وادی میں سیبوں کے کاشت کار شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
پھلوں کے کاروبار سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال نے کاشت کے ساتھ ساتھ سیبوں کی سپلائی کو بھی متاثر کیا ہے، جس سے ریٹس کم ہوگئے ہیں۔
پھلوں کے کاشت کاروں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ہر کاشت کار کو سیبوں کی فروخت میں 40 سے 50 فیصد نقصان ہوا ہے، کیوں کہ سرکاری لاک ڈاؤن اور ذرائع مواصلات کی بندش کی وجہ سے درختوں سے سیبوں کو اتارنے میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی اور بعدازاں نقل و حمل کا مسئلہ درپیش آیا، جس کی وجہ سے سیب کی فصل تباہ ہوگئی۔
بڈگام میں پھل کاشت کرنے والے عادل احمد نے بتایا: ’پچھلے سال نئی دہلی کی مارکیٹ میں 17 کلوگرام کی پیٹی ایک ہزار سے 12 سو روپے میں فروخت ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ وہی پیٹی چھ سو روپے میں فروخت ہوئی، جس کا مطلب ہے کہ کاشت کار کو ایک پیٹی کے صرف دو سور روپے ملے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا: ’اس مرتبہ پھلوں کے تاجر، سیبوں کی فصل سے دور رہے کیونکہ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے کاروبار کی قسمت کے حوالے سے تحفظات کا شکار تھے۔‘
تاجر عموماً کاشت سے قبل فصل کی قیمت ادا کرتے ہیں تاکہ بعد میں وہ اسے کشمیر اور باہر کی مختلف منڈیوں میں زیادہ قیمت پر فروخت کرسکیں۔
سری نگر کے گاؤں شوپیاں میں ایک پھلوں کے کاشت کار محمد اقبال میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ غیر مقامی مزدوروں کی کمی نے بھی سیبوں کی فصل کی گرتی ہوئی قیمتوں میں بڑا کردار ادا کیا۔
ہر کاشت کار کو سیبوں کی فروخت میں 40 سے 50 فیصد نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’بھارتی حکومت کی جانب سے کرفیو کے نفاذ کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ مزدور وادی سے چلے گئے۔ یہ مزدور کشمیر کے ہورٹی کلچر شعبے میں مرکزی افرادی قوت کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی خدمات کم معاوضے پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔‘
اقبال میر کے مطابق کاشت کاروں کو مزدوروں کو تلاش کرنا پڑتا ہے، جو ایک مشکل کام ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے کمیشنگ ایجنٹ بھی ٹرانسپورٹ اور نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر نہیں آسکے۔ اس سے بھی پھلوں کا معیار جانچنے میں تاخیر ہوئی اور نتیجتاً قیمتیں بھی گر گئیں۔‘
مقامی حکومت کے محکمہ فنانس کی جانب سے جاری کیے گئے اکنامک سرو ے برائے 2017 کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیبوں کی فصل کی لاگت تقریباً 80 ارب بھارتی روپے ہے، جو جی ڈی پی کا تقریباً 8.2 فیصد بنتا ہے۔
سروے کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تقریباً 50 لاکھ افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ ہورٹی کلچر سے وابستہ ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ سیبوں کی کاشت پر مشتمل ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق 17-2016 میں اس خطے میں سیبوں کی کُل پیداوار 17.26 لاکھ میٹرک ٹن تھی جبکہ گذشتہ برس یہ 18 لاکھ میٹرک ٹن ہوگئی تھی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیبوں کی فصل کی لاگت تقریباً 80 ارب بھارتی روپے ہے، جو جی ڈی پی کا تقریباً 8.2 فیصد بنتا ہے۔
کاشت کاروں کو فوائد پہنچانے کے لیے بھاتی حکومت نے 12 ستمبر کو مارکیٹ انٹروینشن سکیم (ایم آئی ایس) کا اجرا کیا۔ تاہم نیشنل زرعی کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا لمیٹڈ (NAFED) کے ذریعے سیب کی پیٹیاں خریدنے کی حکومتی پیش کش کو صرف چند لوگوں نے ہی قبول کیا۔
ابتدائی طور پر، کچھ کاشت کاروں نے NAFED اسکیم کے اعلان کے بعد اس کے لیے اندراج کروایا ہے ، لیکن ان کا کہنا تھا کہ سیب اتارنے کے سیزن کے دوران گذشتہ ایک ماہ میں NAFED صرف کچھ ہزار پیٹیوں کی ہی خریداری کرسکتا تھا اور انہیں ادائیگی کرنے میں بھی ناکام رہا۔
ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’دو ہفتوں کے دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی چار منڈیوں میں صرف 30 ہزار سیبوں کی پیٹیاں کاشتکاروں سے خریدی گئیں، جبکہ تین ہزار کسانوں نے NAFED کے ذریعے اپنا اندراج کروایا ہے، جو سیب کی خریداری کی متعلقہ ایجنسی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ مقامی ہورٹی کلچر ڈیپارٹمنٹ نے کشمیر کی چار فروٹ منڈیوں میں کاشتکاروں سے 20 ملین بھارتی روپے سے زیادہ کی سیب کی پیٹیاں خریدی ہیں، لیکن مستفید افراد کے بینک اکاؤنٹس میں صرف 40 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔