جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور مہارت سے دنیا کی تمام لیگز بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں اور ہر ٹیم ان کھلاڑیوں کے بغیر نا مکمل سمجھی جاتی ہیں اور انڈین پریمئییر لیگ تو ان کھلاڑیوں کو بحیثیت قائد بھی منتخب کرتی رہی ہے۔ ان کھلاڑیوں نے متعدد بار اپنی زبردست بیٹنگ بولنگ اور فیلڈنگ سے تماشائیوں کے دل موہ لیے۔ ٹیموں کے فتح گر یہی کھلاڑی رہے ہیں لیکن گذشتہ چند سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ یہی کھلاڑی جب ایک قومی یونٹ بن کر میدان میں کسی ٹیم کا مقابلہ کرتے ہیں تو ان کی کارکردگی کسی اوسط درجے کی ٹیم سے بھی کم ہو جاتی ہے۔
گذشتہ ورلڈکپ میں جنوبی افریقہ کی ٹیم اپنے معیار سے اس قدر گر گئی کہ ریٹائرمنٹ لینے والے ابراہم ڈیویلیئرز کو بھی پھر سے میدان میں اترنے کی بات کرنی پڑ گئی۔
کچھ نئے کھلاڑی اور ناتجربہ کاری تو پہلے ہی ٹیم کا اعتماد متزلزل کرنے کے لیے ہی کافی تھے، لیکن بھارتی بورڈ نے ان کی درگت بنانے کے لیے مزید انتظام کر رکھا تھا۔ انہوں نے غیر معروف ٹیسٹ سینٹروں میں نئی نویلی پچوں پر کھلا کر جنوبی افریقہ کی کشتی کو مزید ڈبو دیا۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کارکردگی اتنی بری تھی کہ انڈین تماشائی جو کرکٹ کا کوئی میچ ہو تو سٹیڈیم کو بھرے بغیر نہیں چھوڑتے، اس سیریز میں قطعی لاتعلق نظر آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین بیٹنگ اپنے جوبن پر نظر آئی، لیکن روہت شرما کی دھواں دار سنچریوں پر تالیاں بجانے والے اتنے کم تھے کہ روہت شرما خود سے پوچھ رہے ہوں گے کہ میں ٹیسٹ میچ کھیل رہا ہوں یا سائیڈ میچ؟
روہت شرما نے شاٹس دل کھول کر کھیلے اور جنوبی افریقہ کے بولروں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ سیریز میں تین سنچریوں کے ساتھ وہ سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تو رہے لیکن اپنے کیریئر کے ابتدا میں ہی ڈبل سنچری سکور کرنے والے ماینک اگروال بھی ایک قابل اعتماد اوپنر کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
ڈبل سنچریوں کے کھاتے میں کپتان وراٹ کوہلی نے بھی اپنا نام لکھوایا مگر ایک اننگز کے سوا ان کا بیٹ خاموش ہی رہا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کہیں کہیں دباؤ میں بھی تھے۔
جنوبی افریقہ کی طرف سے بیٹنگ میں کوئی خاص کارکردگی تو نظر نہ آ سکی لیکن ایلگر اور کوئنٹن ڈی کوک نے آنسو پونچھنے کے لیے ایک ایک سنچری سکور تو کی مگر شکست کے راستے میں دیوار نہ بن سکے۔
جنوبی افریقہ کی بولنگ اگرچہ پچھلے میچوں میں بہت بہترنظر آئی ہے اور ربادا جیسے بولر کی موجودگی میں اسے کسی طرح اوسط درجے کی نہیں کہا جا سکتا مگر حالیہ دورے میں کہیں بھی وہ انڈین بلےبازوں کو تنگ نہ کر سکی۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم میں کئی نو آموز بولرز شامل تھے جن سے مستقبل میں اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
اگر وکٹوں کی بات کریں تو وہ ہمیشہ کی طرح سست ہی تھیں اور فاسٹ بولروں کے لیے کوئی مدد نہیں دے رہی تھیں لیکن انہی وکٹوں پر جہاں ربادا ناکام تھے وہاں شامی اور یادو نے زبردست بولنگ کی اور جنوبی افریقن بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔
خاص طور پر محمد شامی نے چوتھی اننگز کی کنڈیشنز سے جس طرح فائدہ اٹھا کر موثر ریورس سوئنگ بولنگ کی، اس نے شعیب اختر کو بھی ان کا دم بھرنے پر مجبور کر دیا۔
آئی سی سی چیمپئین شپ کے سلسلے کی یہ ٹیسٹ سیریز مجموعی طور پر مقابلہ نہ ہونے کے باعث ایک اکتا دینے والی سیریز تھی اور جنوبی افریقہ کے زیادہ کھلاڑیوں کا نصب العین کسی نہ کسی انڈین لیگ سے منسلک ہو جانا ہو تو تماشائیوں کو خاک مزہ آتا کہ کرکٹ کی سنسنی خیزی دیکھ سکیں۔
مسلسل 11ویں ہوم سیریز کی فتح نے کوہلی کو دنیا کے بڑے کپتانوں میں شامل کر دیا ہے اور بھارتی بیٹنگ لائن اب یقینی طور پر دنیا کی کسی بھی مضبوط ٹیم کو کڑا وقت دے سکتی ہے۔
لیکن کیا بیٹنگ کا یہ تسلسل غیر ملکی پچوں پر بھی رہے گا جہاں بھارتی ٹیم زیادہ تر ناکام رہی ہے؟
گھر کے شیر کے نام سے مشہور بھارتی ٹیم کا اصل مقابلہ تو ملک سے باہر ہی ہو گا لیکن اس بات سے اتفاق کرنا ہو گا کہ ٹیسٹ ٹیموں کی آئی سی سی کی درجہ بندی میں بھارتی ٹیم کی پہلے نمبر پر رہنے کی سب سے بڑی وجہ اس کے بڑے بیٹسمینوں کا تسلسل سے پرفارم کرنا ہی ہے۔
کرکٹ میں کارکردگی کو برقرار رکھنا ایک مشکل عمل ہے اور زیادہ تر بیٹسمین تسلسل برقرار نہیں رکھ پاتے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ٹیسٹ میچوں میں فتح کا تاج سجانے والی ٹیم آئندہ دنوں میں شروع ہونے والی ون ڈے سیریز میں بھی فاتح رہتی ہے یا جنوبی افریقی ٹیم اپنے شاندار ماضی کا کوئی رنگ دکھا کر ایک دو میچ جیت لیتی ہے۔
اگر ایسا ہو گیا تو تماشائیوں کو کانٹے کے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔