’ہمارے معاشی قتل کو روکا جائے۔ حکومت ٹیکس کی آڑ میں تاجروں سمیت عام لوگوں کو لوٹ رہی ہے۔ ایک نہیں بلکہ تین جگہوں پر ہم سے انکم ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جس کے لیے کوئی طریقہ کار بھی نہیں بنایا گیا ہے۔‘
یہ کہنا تھا تاجر اتحاد پشاور کینٹ کے صدر مجیب الرحمٰن کا جو پشاور میں ہونے والی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی قیادت کر رہے تھے۔
ملک بھر کی تاجر تنظیموں نے منگل اور بدھ (30-29 اکتوبر) کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ گذشتہ روز پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں ویرانی کا سماں نظر آیا۔
پشاور کے بڑے بازاروں صدر اور کینٹ کے تاجروں نے اپنا احتجاجی کیمپ صدر کے فوارہ چوک میں لگایا تھا، جس میں دکانداروں سمیت عام لوگ بھی شریک تھے جنہوں نے حکومت مخالف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
مجیب الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وہ ٹیکسز کے خلاف نہیں ہے لیکن تاجر17 فیصد کے بجائے 51 فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔‘
انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ’کارخانے دار سے الگ ٹیکس لیا جاتا ہے، دکاندار سے الگ ٹیکس اور دکاندار جب تھوک کے حساب سے کسی اور دکاندار کو مال سپلائی کریں تو ان سے الگ17 فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے جو تاجروں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹیکس کلیکشن کے لیے کوئی طریقہ کار بھی موجود نہیں کیونکہ دکاندار اگر گوشوارے جمع کرائیں گے تو وکیل کو الگ سے دو سے تین ہزار روپے دیں گے اور فیڈر بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ایجنٹ کو الگ رشوت دیں گے تب ہی ان کے ٹیکس گوشورے جمع ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’پشاور کی مارکیٹ میں بیٹھے مصالحے بیچنے والوں کو کیا پتہ ہے کہ وہ ٹیکس گوشوارے کس طرح جمع کروائیں اور ٹیکس کس طرح ادا کریں۔ ان کے لیے پہلے طریقہ کار (مکینزم) ہونا چاہیے، اس کے بعد ٹیکس جمع کرنا چاہیے۔‘
مجیب الرحمٰن نے بتایا کہ کوئی بھی تاجر ٹیکس دینے سے انکاری نہیں ہے لیکن پہلے حکومت ان کو وہ سہولیات تو فراہم کریں جو ترقی یافتہ ممالک میں تاجروں کو دی جاتی ہیں کیونکہ ٹیکس تو لوگ تب دیتے ہیں جب حکومت کی جانب سے ان کو سہولیات دی جائیں۔
لاہور میں بھی تاجروں کی شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے، ایسے میں خوانچہ فروش بند دکانوں کے سامنے اپنے سٹال لگائے بیٹھے ہیں۔ (اے ایف پی)
اسی طرح گاہکوں سے شناختی کارڈ کے مطالبے کے حوالے سے مجیب الرحمٰن نے بتایا کہ حکومت نے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر کوئی گاہک 50 ہزار سے زائد کی خریداری کرے تو اس سے شناختی کارڈ کی کاپی کا مطالبہ کریں، تو وہ یہ نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا: ’ہم کوئی ایف بی آر اہلکار نہیں ہیں کہ خریداروں سے شناختی کارڈ کا مطالبہ کریں گے۔ اس سے ہماری خریداری متاثر ہو گی اور یہ ذمہ داری دکاندار کی ہے بھی نہیں کیونکہ کل کو اگر کوئی خریدار جعلی یا غلط شناختی کارڈ کی کاپی دے دے تو اس کا کون ذمہ دار ہوگا۔‘
تاجروں کے اسی مظاہرے میں شریک پشاور کے رہائشی محمد منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اظہارِ یکجحتی کے لیے تاجروں کے اس مظاہرے میں شریک ہوئے ہیں کیونکہ اس حکومت میں صرف تاجر نہیں بلکہ عام خریدار بھی متاثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو چیزیں اس حکومت آنے سے پہلے 200 روپے میں ملتی تھیں، اب وہ مہنگی ہو کر 400 سے 500 روپے تک پہنچ گئی ہیں۔اسی طرح بجلی اور گیس کے بلوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ایک عام شہری، جس کی تنخواہ15 سے20 ہزار روپے تک ہو، اس کا جینا محال ہوگیا ہے۔