ہم لڑکیاں اپنے بالوں کے بارے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ہمیں بچپن سے خود سے زیادہ اپنے بالوں کی فکر کرنی سکھائی جاتی ہے کیونکہ ہمارے ہونے والے مجازی خدا کو اگر ہم سے کوئی چیز باندھے رکھے گی تو وہ بس ہمارے بال ہوں گے۔
اپنے ان مجازی خدا کی خاطر ہم لڑکیاں اپنے بالوں پر طرح طرح کے شیمپو استعمال کرتی ہیں، مختلف ہیئر ماسک لگاتی ہیں اور جانے کیا کیا کھاتی ہیں۔
ہمیں بھی بچپن میں بہت کچھ کھلایا گیا لیکن ہمارے بالوں نے اُس خوراک سے زیادہ اُن جینز پر انحصار کیا جو ہمیں اپنے والد کی طرف سے ملے تھے۔
والدہ نے پھر بھی ہار نہیں مانی۔ کبھی ہمارے سر پر سرسوں کا خالص تیل لگاتیں تو کبھی تارا میرا کا۔ آج بھی اس تیل کا سوچوں تو آنکھوں میں مرچیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اتنے انڈے ہم نے کھائے نہیں ہوں گے جتنے ہمارے سر پر لگائے گئے۔ ہمارے بالوں کا پھر بھی وہی حال رہا۔ کچھ سال بعد بال گرنا شروع ہو گئے۔ بہت جتن کیے لیکن بالوں نے کسی کی نہ سنی۔ حل یہ نکالا کہ بال چھوٹے کروا لیے۔ نہ ہوں گے لمبے بال، نہ وہ کنگھے میں الجھیں گے اور نہ ٹوٹیں گے۔ یہ نسخہ کسی حد تک تو کام کرتا ہے لیکن مکمل طور پر نہیں۔ اب حال یہ ہے کہ ماتھا کافی بڑا ہو چکا ہے اور سامنے سے ہلکی سی گنج بھی نظر آنے لگی ہے۔
کچھ سال قبل ایک رشتے والے آئے تو ہمارے بال دیکھنے کی باقاعدہ فرمائش کر ڈالی۔ ہم تب ٹھیک ٹھاک پردہ کیا کرتے تھے۔ سر سے دوپٹہ اتارتے ہوئے ہمارے ہاتھ کانپ رہے تھے اور آنکھوں کے سامنے جہنم کی آگ بھڑ رہی تھی۔ جانے کس دل سے سر سے دوپٹہ اتارا اور آنٹی کو اپنے بالوں کا دیدار کروایا۔ آنٹی کو ہمارے بال اپنے بیٹے کے لیے نامناسب لگے اس لیے بس چائے پی کر ہی نکل لیں۔
ہمیں ایسی لڑکیوں سے عجیب جلن محسوس ہوتی ہے جن کے سر پر اتنے بال ضرور ہوتے ہیں جنہیں وہ سنوار سکیں۔ وہ کبھی بالوں کو کرل کرتی ہیں تو کبھی سٹریٹ، کبھی چٹیا بنا لیتی ہیں تو کبھی ایسے ہی ہلکا سا بل دے کر کھلے چھوڑ دیتی ہیں۔ ہم اپنے بالوں کو کرل کریں تو وہ مزید الجھ جاتے ہیں، سٹریٹ (سیدھا) کریں تو گنج واضح ہو جاتی ہے اور چٹیا بنائیں تو وہ اتنی پتلی بنتی ہے کہ خود ہی شرم کے مارے کھول دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کہیں جانا ہو تو ہم سے پہلے لوگ ہماری گنج دیکھتے ہیں اور پھر موضوعِ گفتگو وہی بن جاتی ہے۔ ہم نے اپنی ایک چچی سے بھی ان بالوں کی وجہ سے ہی ملنا چھوڑ دیا۔ جب بھی ان کے گھر جانا ہوتا وہ ضرور پوچھتیں: ’ اے تمہارے بال لمبے نہیں ہوتے؟‘ ہم شرمندہ شرمندہ سے ہنس دیتے اور آئندہ ان کے گھر جانے سے توبہ کر لیتے۔
کبھی کبھار تو ایسے مشورے سننے کو ملتے ہیں کہ کانوں کی اگر زبان ہوتی تو خود ہاتھوں سے کہتے: ’بھائی ہمیں چھو لو، ہماری بس ہو گئی ہے۔‘
ہمارا بہت دل کرتا ہے کہ ان مشورہ دینے والوں کو صاف صاف سنا دیں پر کیا کریں، ہم لکھنے میں جتنے شیر ہیں، بولنے میں اتنے نکمے۔ ہماری آنٹی اگر یہ بلاگ پڑھ رہی ہوں تو اگلے چند جملوں میں ہم ان سے اور صرف ان سے مخاطب ہیں۔
’آنٹی! ہماری گنج جتنی آپ کو نظر آ رہی ہے، اس سے کہیں زیادہ ہمیں نظر آتی ہے۔ ہم انٹرنیٹ پر صفحوں کے صفحے پڑھ چکے ہیں، جانے کس کس ڈاکٹر کے دربار میں حاضری دے چکے ہیں، کچھ میڈیکیٹڈ شیمپو بھی استعمال میں رہے ہیں اور دوائیوں کے ڈبے بھی خالی کر چکے ہیں لیکن بال تو اب یہی ہیں۔ اب یا تو ہم انہیں لے کر بیٹھ جائیں یا کوئی اور کام بھی کرلیں۔ ہم دوسری طرح زیادہ خوش ہیں۔ پڑھائی کرتے ہیں، بلاگ لکھتے ہیں، اتوار کو دوستوں سے ملتے ہیں اور کبھی وقت ملے تو بالوں کی بھی دیکھ بھال کر لیتے ہیں۔ ہم اس حال میں بہت خوش ہیں۔ آپ بھی خوش ہو جائیں۔‘
گنج پن مرد اور عورت دونوں کا مسئلہ ہے۔ مردوں کا گنج پن تو پھر بھی چل جاتا ہے لیکن ایک ایسی عورت جسے دنیا میں آئے 30 سال ہونے والے ہوں، اس کے بال بمشکل کندھوں کو چھوتے ہوں اور اوپر سے ہلکے بھی ہوں، اس کا گزارا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ بازار میں مختلف سٹائل کی وِگ دستیاب ہیں۔ ہم دو چار خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جسے جیسے بال پسند ہوں، اس کے سامنے ویسی ہی وِگ پہن لیں گے۔ ڈاکٹروں سے ہمیں ڈر لگتا ہے ورنہ ہیئر ٹرانسپلانٹ بھی کروا سکتے تھے۔
ہم مانتے ہیں کہ انسان کو اپنے ظاہری حال پر توجہ دینی چاہیے۔ جس نے سیرت دیکھنی ہے وہ پہلے صورت کا ہی دیدار کرتا ہے اور کافی دیر تک کرتا ہے۔ ہم اب سجل علی تھوڑی ہیں کہ ایچ ڈی کریم لگائیں تو چہرے پر نور کی بارش ہی ہونے لگے۔ ہمارا چہرہ تو بھائی ایسا ہی رہتا ہے۔ ذرا سی لپ سٹک لگا لیں تو کھل جاتا ہے، گال پر بلش آن رگڑ لیں تو وہ بھی چہکنے لگتے ہیں۔ موڈ اور وقت ہو تو کانوں میں کوئی بالی بھی چڑھا لیتے ہیں۔
نوز پن ہمیں پسند نہیں کہ نکیل لگتی ہے۔ رہ گئے بال تو وہ ہم نے ’کافی‘ رنگ کے رنگے ہوئے ہیں۔ جب تک ہیں، انہیں سجائیں گے، سنواریں گے۔ جب نہیں رہیں گے تو ان کی تصویر دیکھ کر یاد کیا کریں گے۔ اتنے سال ساتھ نبھانے پر ان کا شکریہ ادا کریں گے اور واپس اپنی کتاب اور کافی کی طرف مڑ جائیں گے۔ یہی زندگی ہے اور یہ ایسے ہی گزارنی چاہیے۔