عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں چرچ بہت بااثر ہو گیا تھا۔ فرد کی پیدائش سے لے کر موت تک چرچ کی رسومات ادا کرنی پڑتی تھیں۔ روزمرہ کی زندگی میں بھی اُس کا عمل دخل تھا۔ اُس کے عقائد سے منحرف ہونے کی صورت میں سخت سزائیں مقرر تھیں یہاں تک کہ منحرف کو زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ تعلیمی نصاب پر بھی اُس کا کنٹرول تھا۔ یہاں تک کے مرنے کے بعد چرچ کے قبرستان ہی میں دفن کیا جاتا تھا۔
عورت کے بارے میں مذہبی روایات کے تحت اُسے گناہ اور بدی کا ذمہ قرار دیا جاتا تھا۔ اُس پر یہ الزام بھی تھا کہ اُسی نے حضرت آدم کو جنت سے نکلوایا۔ عیسائیوں کے اولیا (سینٹ) عورتوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور اُن سے دور رہنے کی تاکید کرتے تھے۔ یہاں تک کے وہ اپنے درمیان اس کی موجودگی کو بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ نہ شادی کرتے تھے اور اپنے خاندان سے بھی رشتہ توڑ لیتے تھے۔
ان تمام پابندیوں، نفرتوں اور تعصبات کے باوجود معاشرے میں عورت کا وجود ختم نہیں ہوا اور لوگ شادیاں بھی کرتے تھے، بچے بھی پیدا کرتے تھے اور خاندان میں رہتے ہوئے آپس میں محبت اور پیار کے رشتے میں ایک دوسرے سے قریب بھی رہتے تھے۔ معاشرے کی زندگی میں عورت اور مرد کی شادی ایک اہم واقعہ ہوا کرتی تھی جس میں خاندان والے اور دوسرے عزیز شرکت کرتے تھے۔
رابرٹ گارلینڈ نے ٹیچنگ کمپنی کے ایک لیکچر میں عورت کی شادی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شادی لڑکے اور لڑکی کے خاندانوں کے درمیان بات چیت کے بعد ہوا کرتی تھی۔ شادی سے پہلے یہ معاہدہ بھی کیا جاتا تھا کہ لڑکی کو کتنا جہیز ملے گا اور لڑکے کو بھی ایک خاص رقم ادا کرنی پڑتی تھی۔ شادی اتوار کے دن چرچ میں ہوا کرتی تھی۔ جس میں رشتے دار اور دوست احباب شرکت کرتے تھے۔ یہ بھی دستور تھا کہ اگر کوئی فرد چاہے تو وہ آگے بڑھ کر شادی پر اعتراض بھی کر سکتا تھا۔ اس کے بعد بارات جلوس کی شکل میں لڑکی کے گھر جاتی تھی جہاں ایک ضیافت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اگر لڑکی طلاق لینا چاہتی تھی تو اُس کو مرد کی کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ بتانا ہوتی تھی۔ لیکن اگر مرد بیوی کے بجائے دوسری عورتوں سے تعلقات رکھتا تھا تو بیوی اس صورت میں طلاق نہیں لیتی تھی بلکہ علیحدگی اختیار کر لیتی تھی۔
عہد وسطیٰ میں ہم عورتوں کی زندگی کو طبقات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ امرا کی عورتوں کو تھوڑی بہت آزادی تھی اور وہ کھیل کود کے موقعوں پر ان میں شرکت بھی کرتی تھیں۔ عہد وسطیٰ میں دربار کی محبت جسے Courtly Love کہتے تھے۔ یہ ایک بڑا رومان پرور تصور تھا۔
سر والٹر اسکاٹ نے اپنے تاریخی ناولوں میں ایسے بہت سے محبت کے تذکرے کیے ہیں جو ایک نائٹ اور کسی شادی شدہ امیر خاتون کے درمیان ہو جاتے تھے۔ ٹورنامنٹ کے موقع پر جب نائٹس اپنی بہادری دکھاتے تھے تو محبت کرنے والا نائٹ اپنی محبوبہ کو متاثر کرنے کے لیے بہادری کے ساتھ حریف کا مقابلہ کرتا تھا۔ کبھی کبھی اُس کی محبوبہ ایسی جگہ رومال پھینک دیتی تھی جہاں سے وہ اُٹھا کر اپنے پاس اُس کی نشانی کے طور پر رکھ لیتا تھا۔ کبھی کبھی یہ دوری ختم بھی ہو جاتی تھی اور آپس میں ملاپ بھی ہو جاتا تھا۔
وقت کے ساتھ امراء کی عورتوں میں تعلیم کا رواج ہو گیا تھا۔ اگرچہ اب تک اُنہیں کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ تو نہیں ملتا تھا مگر وہ گھر پر اساتذہ کی زیر نگرانی لکھنا پڑھنا سیکھ لیتی تھیں اور جب بھی اُنہیں مواقع میسر آتے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار بھی کرتی تھیں۔ اگر اُن کے شوہر جنگ پر چلے جاتے تھے جیسے کہ بہت سے امراء صلیبی جنگوں میں گئے تو عورتوں کو آزادی مل جاتی تھی اور تمام گھریلو انتظامات کی ذمہ داری اُن پر آجاتی تھی۔ امراء کی کچھ عورتوں نے صلیبی جنگوں میں حصہ لیا اور مردوں کی حوصلہ افزائی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امراء کی عورتیں خود سے تو کوئی کام کاج نہیں کرتی تھیں کیونکہ کام کاج کے لیے اُن کے پاس نوکروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی تھی لیکن گھر کے کام کاج کی نگرانی ضرور کرتی تھیں اور اگر گھر میں کوئی دعوت ہوتی تو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مہمانوں کا خیال ضرور رکھتی تھیں۔ کیونکہ اُن کے پاس فرصت کے اوقات ہوتے تھے اس لیے یہ اپنا وقت سِلائی، کڑھائی میں صَرف کرتی تھیں۔
عہد وسطیٰ کے یورپ میں جگہ جگہ خانقاہیں موجود تھیں جو مردوں اور عورتوں کے لیے مخصوص تھیں جہاں وہ راہب اور نَن بن کر اُن خانقاہوں میں رہتے تھے اور اپنی پوری زندگی عبادت و ریاضت میں گزار دیتے تھے۔ خانقاہوں کے سخت قوانین تھے۔ صبح سے لے کر شام تک ہر کام کے لیے وقت مقرر تھا۔ ان خانقاہوں کو حکمران اور امراء جاگیریں دے دیا کرتے تھے۔ جو ان کے اخراجات پورا کرنے کے لیے کافی ہوتے تھے۔ ایک وقت تک تو ان خانقاہوں میں وہی جاتے تھے جن کا مذہب پر سچا عقیدہ ہوتا تھا۔ مگر بعد میں بے روزگار اور سست اور کاہل مردوں نے خانقاہ میں رہنا شروع کر دیا تاکہ اُن کی زندگی آرام اور سکون سے گزر جائے۔
وہ عورتیں جو نَن بنتی تھیں وہ بھی سیاست کا شکار ہوئیں۔ ان میں بہت سی امراء کی وہ عورتیں ہوتی تھیں جن کی یا تو شادی نہیں ہوئی تھی یا ماں باپ خود اُن کی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے تو وہ اُنہیں نَن بنا کر اُن سے چھٹکارا حاصل کر لیتے تھے۔ شاہی خاندان کی اکثر خواتین جو سیاست میں حصہ لیتی تھیں اُن کے حریف کامیابی کے بعد اُنہیں نَن بنا کر خانقاہ میں بھیج دیتے تھے۔ اس طرح سے خانقاہ کا مقصد نہ صرف مذہبی رہا بلکہ سیاسی بھی ہو گیا۔
امراء کی خواتین کے بعد جب ہم نچلے طبقے کی عورتوں کے بارے میں ذکر کرتے ہیں تو یہاں ہمیں اُن کے گھریلو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُن کی خستہ مالی حالت، گھریلو تشدد، کام کاج کی زیادتی یہ سب عورت کو اتنا مصروف رکھتے تھے کہ فرصت کے لمحات کا فقدان رہتا تھا۔ اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے یہ عورتیں مختلف پیشے اختیار کرتی تھیں۔ جیسے سِلائی کڑھائی کرنا، کپڑے سِینا، کھانا پکانا، دوسرے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام، ہوٹل میں انتظامی امور کی ذمہ داری، امراءکے بچوں کی دیکھ بھال اور سب سے اہم یہ کہ امراء کی خواتین کے لیے سِلک سے کپڑے بنانا۔
اس مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہد وسطیٰ کی عورت چاہے اُس کا تعلق امراءکے خاندان سے ہو یا نچلے درجے سے ابھی تک وہ مذہبی اور سماجی تعصبات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اُسے اپنے حقوق اور آزادی کے لیے ایک طویل جنگ کرنی پڑی۔
خاص طور سے مذہبی طور پر جن عقائد کی بنیاد پر اُس کا مقام متعین کیا گیا تھا اُس کو توڑنے کے لیے ضروری تھا کہ ان مذہبی تعصبات کی بنیادوں کو ختم کیا جائے۔ اس کے بارے میں جو ارسطو اور گیلن نے سائنس کی بنیاد پر ثابت کیا تھا وہ بھی سائنس کی نئی دریافتوں نے غلط ثابت کرکے اُس کو مرد کے برابر کیا۔ جن عورتوں نے ماضی میں ان نفرتوں کا سامنا کیا اور اُن سے مقابلہ کیا وہ جدید دور میں تحریک نسواں کے لیے ایک اہم سبق ہے۔