’ہو سکتا ہے حراستی مراکز نظریہ ضرورت کے تحت بنے ہوں‘

اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے دوران سماعت کہا کہ ’عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ حراستی مراکز غیر آئینی نہیں، بلکہ آئینی اور وقت کی ضرورت ہیں۔‘

 دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال کیا ’ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس ایکٹ 2019 کی معیاد پوری ہو چکی ہے۔ ممکن ہے فساد ختم ہوگیا ہو لیکن شدت پسند باقی ہوں لیکن اگر پہلے سے رائج قوانین جاری تھے تو نئے آرڈیننس کی کیا ضرورت تھی؟‘ (سپریم کورٹ آف پاکستان)

جمعے کو خیبر پختونخوا میں فاٹا پاٹا ایکٹ آرڈیننس اور حراستی مراکز کے حوالے سے سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سماعت کے تیسرے دن بھی اٹارنی جنرل کے دلائل سے مکمل مطمئن نہ دکھائی دئیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’مسئلہ ان حراستی مراکز کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا ہے۔ اگر یہ غیر آئینی ہیں تو ان کی کارکردگی پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے دلائل میں کہا کہ جو بھی حراستی مرکز میں ہوتا ہے وہ درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک مہینے میں 72 افراد کو حراست میں لیا، انہیں وہاں رکھا، انہیں وہاں پڑھایا لکھایا گیا۔ دو سال کے بعد واپس اُن کے گھروں میں بھجوا دیا گیا۔‘ چیف جسٹس نے کہا ’یہاں یہ بات نہیں ہو رہی کہ یہ حراستی مرکز اچھا کام کر رہے ہیں یا برا۔ اصل مسئلہ ان کی آئینی حیثیت کا ہے ۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ مجھے مطمئن کریں کہ یہ حراستی مرکز کیسے بنے اور قانون اس بارے کیا کہتا ہے؟‘

کیا حراستی مرکز ضرورت ہیں ؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دہشت گردی کے خطرے اور کچھ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے یہ مراکز بنائے گئے۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ’9/11 کے بعد غیر ریاستی عناصر کا لفظ سامنے آیا۔ غیر ریاستی عناصر کو کوئی ملک بھی تحفظ نہیں دیتا۔ امریکہ نے غیر ریاستی عناصر کے لیے گوانتاناموبے جیل بنائی۔ کیا اداروں کے پاس زیر حراست افراد کے غیر ریاستی عناصر ہونے کے شواہد ہیں؟‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اداروں کے پاس تمام تفصیلات اور شواہد موجود ہیں۔ ’اولین ترجیح ملک کو دہشت گردی سے بچانا ہے۔‘ اس نکتے پر آ کر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے حراستی مراکز نظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہوں۔ پاکستان کو دشمن ممالک نے ٹارگٹ کر رکھا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ حراستی مراکز غیر آئینی نہیں، بلکہ آئینی اور وقت کی ضرورت ہیں۔‘

حراستی مرکز میں قید افراد کی سہولیات

اٹارنی جنرل پاکستان کے مطابق ’حراستی مراکز میں جسمانی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دینی و دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’زیر حراست افراد کے اہل خانہ کو تفصیلات بتائی جاتی ہیں لیکن اہل خانہ کو منع کیا جاتا ہے کہ تفصیلات آ گے کسی کو فراہم نہ کریں۔ حساس ہونے کی وجہ سے زیر حراست افراد کی تفصیلات عام نہیں کرسکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


اٹارنی جنرل کے مطابق ’زیر حراست افراد 15 روز بعد ایک خط اہل خانہ کو لکھ سکتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’حراستی مراکز کے کام کے طریقہ کار سے متعلق عدالت کو ایک ویڈیو بھی دکھاؤں گا۔‘

ایک موقعے پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’بعض لاپتہ افراد کا اداروں کو بھی علم نہیں اور بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں ناگزیر وجوہات کے باعث فی الحال اُن کے اہل خانہ سے نہیں ملوا سکتے۔‘

سہولیات کے بارے میں سن کر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ’ایسے قوانین دیکھ کر تو لگتا ہے کہ حراست قانونی ہے معلوم نہیں عملی طور پر ان پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔‘

 سماعت میں چیف جسٹس کی جانب سے اُٹھائے گئے چند سوالات:

چیف جسٹس نے سوال کیا ’ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس ایکٹ 2019 کی معیاد پوری ہو چکی ہے۔ ممکن ہے فساد ختم ہوگیا ہو لیکن شدت پسند باقی ہوں لیکن اگر پہلے سے رائج قوانین جاری تھے تو نئے آرڈیننس کی کیا ضرورت تھی؟‘ 

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’بظاہر 2019 کے آرڈیننس کی ضرورت نہیں تھی۔‘

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’اگر فوج کی موجودگی برقرار رکھنا مقصد تھا تو فوج پہلے سے موجود تھی۔ لکھا ہے کہ 2019 کے آرڈیننس کے مطابق فوج قانون کے مطابق آپریشن کرے گی تو کیا فوج اس سے پہلے قانون کے خلاف آپریشن کر رہی تھی؟ تین دن سے پوچھ رہے ہیں نئے آرڈیننس کی کیا وجہ تھی؟‘ 

اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’2019 کے آرڈیننس نے پہلے سے رائج قوانین کی توثیق کی ہے آرڈیننس کے ذریعے کسی قانون کو ختم نہیں کیا گیا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کو بتایا جائے 2019 کا آرڈیننس لانے کی وجہ کیا تھی؟ اگر ٹھوس وجہ سامنے نہ آئی تو گڑبڑ ہوجائے گی۔‘

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’امید ہے عدالت عظمی حراستی مراکز کو ختم کر دے گی کیوں کہ ان کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔‘

اُن سے جب پوچھا گیا کہ حراستی مراکز کے حوالے سے جو تفصیل سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے اس بارے میں کوئی معلومات ہیں تو انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئیں خفیہ دستاویزات میں صرف حراستی مراکز کی تعداد، زیر حراست افراد کی تعداد اور نام شامل ہیں۔ اُس میں تفصیل درج نہیں ہے کہ کس شخص کو کتنے عرصے سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے مزید بتایا کہ ’ایک بار پارلیمان یہ معاملہ اُٹھایا تھا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان