دعا منگی کے اغوا کی گتھی سلجھ نہ سکی، پولیس تحقیقات جاری

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے اس اہم کیس کا نوٹس لینے کے بعد کیس کی تحقیقات ساؤتھ پولیس اور اے وی سی سی کو سونپ دی گئی ہے۔

دعا کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع  یونیورسٹی کی طالبہ تھیں اور کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ سے لوٹی تھیں جہاں انہوں نے ایک سال کے عرصے کے دوران تعلیم حاصل کی۔( سکرین گریب)

ہفتے کی شب کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع ہوٹل سے اغوا ہونے والی دعا منگی اور ان کے اغوا کاروں کا تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

پولیس ذرائع کے مطابق ’یہ اغوا برائے تاوان کا نہیں بلکہ بدلہ لینے کا واقعہ ہو سکتا ہے۔ جو گاڑی اس واردات میں استعمال ہوئی وہ ممکنہ طور پر وہی گاڑی لگتی ہے جو چند روز قبل پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 سے چھینی گئی تھی۔‘ دعا منگی کی بازیابی کے لیے تین تلوار پر دھرنا بھی دیا گیا۔

ایس ایچ او تھانہ فیروزآباد اورنگزیب خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’27 نومبر کو پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 کے مکان نمبر 113 کے سامنے سے کار سوار 4 ملزمان نے ہنڈا سِوک کار نمبر اے جے ایل 057 اسلحہ کے زور پر چھین لی تھی۔ اس کا مقدمہ فیروز آباد تھانے میں درج کرا دیا گیا تھا۔ گاڑی کی رجسٹریشن نوشیروان خالد کے نام سے ہے۔‘

(تصویر: دعا منگی فیس بک پیج)


پولیس کے مطابق کراچی میں بخاری کمرشل پر واقع ہوٹل ’چائے ماسٹر‘ جسے اب اس کیس کے لیے مرکزِ تفتیش بھی بنا لیا گیا ہے، کے نزدیک جس گاڑی میں سے فائرنگ ہوئی اور دعا کو اغوا کیا گیا، اِس واردات میں ممکنہ طور پر یہی گاڑی استعمال ہوئی ہے کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھی جانے والی گاڑی بالکل اسی طرز کی ہے۔

دعا منگی اکثراپنی بڑی بہن اور دوستوں کے ساتھ خیابان بخاری پر واقع ماسٹر چائے جایا کرتی تھیں جہاں عام طور پر ڈیفنس کے رہائشی اور کراچی کے مختلف علاقوں سے نوجوان شام کو چائے پینے اور بیٹھنے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں عام طور پر رات ایک بجے تک بھی یہاں کافی رونق ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے اس اہم کیس کا نوٹس لینے کے بعد کیس کی تحقیقات ساؤتھ پولیس اور اے وی سی سی کو سونپ دی گئی ہے۔

درخشاں پولیس تھانے کے ڈی ایس پی زاہد کے مطابق ’پولیس اس کیس کی دونوں پہلوؤں سے تحقیقات کررہی ہے۔ ابھی تک جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق حتمی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ اغوا برائے تاوان ہے یا پھر بدلے کا معاملہ ہے۔‘

پولیس کے مطابق دعا کے اہل خانہ نے مظفر نامی شخص پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ تاحال تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکا میں تعلیم کے حصول کے دوران دعا کی دوستی لاہور کے رہائشی مظفر سے ہوئی تھی جس نے دعا کو شادی کے لیے رضامند کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ اس شادی کے حق میں نہیں تھیں۔ ان دونوں کے درمیان تقریباً دس دن قبل جھگڑا بھی ہوا تھا اور اغوا والے دن دعا چائے ماسٹر پر ایک دوست کی سالگرہ میں شرکت کرنے گئی تھیں، جہاں مظفر بھی موجود تھا۔

پولیس نے تفتیش کے لیے دعا اور اس کے دوست حارث فاتح کے گروپ کے لڑکے لڑکیوں، چائے ماسٹر کے عملے اور سکیورٹی گارڈ سمیت 22 افراد کے بیانات ریکارڈ کرلیے ہیں۔ درخشاں پولیس تھانے کے ڈی ایس پی زاہد کے مطابق جس وقت کارسوار ملزمان نے دعا کے دوست حارث پر گولی چلائی اور دعا کو گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی اس دوران دعا کا فون زمین پر گر گیا تھا۔ پولیس تفتیش کے لیے دعا اور حارث کے فون کا ڈیٹا حاصل کر رہی ہے۔

 دعا منگی کون ہیں؟

دعا منگی نے ابتدائی تعلیم عائشہ باوانی اکیڈمی سے حاصل کی۔ وہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع لا یونیورسٹی کی طالبہ تھیں اور کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ سے لوٹی تھیں جہاں انہوں نے ایک سال کے عرصے کے دوران تعلیم حاصل کی۔

خاندانی ذرائع کے مطابق دعا کے والد ڈاکٹر نثار احمد منگی جناح اسپتال میں میڈیکل آفیسراور شعبہ سرجری کے پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ اب وہ کورنگی روڈ پر قیوم آباد میں نجی کلینک چلاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر دعا منگی کی کردار کشی

ہفتے کی شب دعا منگی کے اغوا کی خبر ملنے کے بعد ان کی بڑی بہن لیلیٰ منگی جو جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ میں پڑھاتی ہیں، نے سوشل میڈیا پر پوسٹس شائع کیں جن میں لوگوں سے دعا کی بازیابی میں مدد کی اپیل بھی کی۔

سماجی کارکن جبران ناصر نے بھی سوشل میڈیا پر مدد کی اپیل کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’دعا بہت ہی ہونہار طالبِ علم ہے جن سے میری ملاقات گزشتہ سال انتخابی مہم کے دوران ہوئی تھی۔ اگر کسی کو بھی دعا کے حوالے سے کوئی معلومات حاصل ہوں تو مجھ سے فوری طور پر رابطہ کریں۔‘

اس کے بعد نہ صرف فیس بک بلکہ ٹوئٹرپر بھی لوگوں نے دعا کے حوالے سے متعدد پوسٹس شیئر کیں۔ پیر کے روز ’دعا‘ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

(تصویر: فیس بک)


ایک طرف کئی لوگوں نے ان کی بازیابی کے لیے دعا کی تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر ہی کچھ افراد نے دعا کے کردار کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔ کئی نفرت انگیز کمنٹس پڑھنے کے بعد دعا کے اہلِ خانہ نے لوگوں سے درخواست کی کہ دعا کے پہناوے پر تنقید کرنے کے بجائے ان کی بازیابی کے لیے دعا کریں۔

لیلی منگی نے دل برداشتہ ہو کر کہا کہ ’ آپ کو کیا ملا میری چھوٹی بہن کی کردار کشی کرکے؟ ایک طرف میری بہن اب تک گھر نہیں لوٹی، دوسری طرف اس کا دوست آئی سی یو میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے اور آپ یہاں میری بہن کے پہناوے پر تنقید کر رہے ہیں۔ افسوس یہ میرے اپنے ملک کے لوگ ہیں جو جان سے زیادہ کپڑوں کی پرواہ کرتے ہیں۔‘

کراچی میں تین تلوار چورنگی پر دعا منگی کی بازیابی کے لیے ہونے والے مظاہرے میں ان کی بہن سمیت طلبہ کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان