فاٹا پاٹا ایکٹ میں ترمیم اور حراستی مرکز کے قیام کے حوالے سے مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے بدھ کو دبارہ شروع کی۔ اب تک حراستی مرکز سے متعلق چھ سماعتیں ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک اٹارنی جنرل ان کی قانونی حیثیت کے حوالے عدالت کو بظاہر مطمئن نہیں کر سکے ہیں۔ تازہ سماعت میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو مکمل تیاری کا کہا تاکہ وہ عدالتی سوالات کا جواب دے سکیں۔
اٹارنی جنرل نے دو ہفتے کا وقت طلب کیا اور وجہ بتائی کہ وہ سرکاری کام کی وجہ سے بیرون ملک روانہ ہو رہے ہیں اس لیے آئندہ ہفتے دستیاب نہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وہ اس مقدمے کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرتے ہیں تاکہ ’آپ جب واپس آئیں اور دستاویزات مکمل کر لیں تو عدالت کو اطلاع کر دیں۔‘
یہاں یہ نکتہ اہم ہے کہ اگر اس مقدمے کی سماعت دو ہفتوں تک مقرر نہ ہوئی تو اس بنچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ 20 دسمبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے موجودہ بینچ ٹوٹ جائے گا۔ پھر نئے آنے والے چیف جسٹس گلزار احمد کو اس بنچ کی ازسرنو تشکیل کرنا ہو گی۔
چھ میں سے چار سماعتوں کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے درمیان کافی مرتبہ تلخ مکالمے بھی ہوئے۔ آج کی سماعت کے دوران بھی خلائی دشمن (Alien Enemy)کی تشریح کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ بھارت ہمارا اعلانیہ دشمن ملک ہے۔ اس کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا بھارت کو باضابطہ طور پر دشمن ملک قرار دے دیا گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب اثبات میں دیا اور کہا کہ اس حوالے سے دستاویز عدالت کو پیش کر دوں گا۔
جسٹس قاضی نے ترشی سے کہا کہ کب دستاویز پیش کریں گے؟ جب کیس ختم ہو جائے گا؟ ہر بار آپ یہی کہتے ہیں کہ دستاویزات دے دوں گا لیکن ابھی تک عدالت کو کوئی ٹھوس شواہد نہیں دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ کوئی نوٹس بھی نہیں لے سکیں ہیں۔ اٹارنی جنرل قاضی فائز عیسی کے سوال پر سیخ پا ہوتے ہوئے بولے کہ ’نوٹس لینا ہیں یا نہیں یہ آپ کا کام ہے میرا نہیں۔ مجھے بار بار ٹوکا جاتا ہے بات بھی پوری نہیں سنی جاتی ایسے ماحول میں میں دلائل نہیں دے سکتا۔ آپ میری بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔‘
اس تلخی کو کم کرنے کے لیے چیف جسٹس کو درمیان میں آنا پڑا۔ انہوں نے اپنا پین ٹیبل پر بجایا تاکہ بحث سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ جسٹس گلزار احمد نے بھی اٹارنی جنرل کو کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب دلائل دیں لڑائی نہ کریں۔ ’عدالت سوالات اس لیے کر رہی ہے تاکہ معاملات عدالت کے سامنے واضح ہو سکیں۔‘
Alien enemy کون لوگ ہیں؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ Alien enemy وہ شدت پسند ہیں جن کی شناخت پاکستانی نہیں ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی شہری کو پاکستان دشمن اور غیر ریاستی کہا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دشمن کے لیے کام کرنے والے شہری کو غیر ریاستی کہا جا سکتا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ غیر ریاستی اور دشمن کے لیے فاٹا کے رہائشی کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ اٹارنی جنرل نے وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے رہائشیوں کی اکثریت کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں۔ ’بارڈر سے آر پار ہونے والوں کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ فاٹا میں کون پاکستانی ہے کون نہیں۔ دہشت گردوں کی وجہ سے ملک کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس لیے جن کی شناخت نہ ہوسکے انہیں بھی حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ملک دشمنوں سے نمٹنے کے لیے تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 لایا گیا۔ ’ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا ہر شخص ملک دشمن ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کی پاکستانی شناخت نہیں لیکن کامن ویلتھ سے تعلق رکھنے والے ملک کا شہری ہے تو وہ دولت مشترکہ کا شہری ہو گا جیسے کہ بھارت؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت بیشک کامن ویلتھ کا رکن ہے لیکن وہ دشمن ملک ہے۔ اس بات پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ بھارت دشمن ملک ہے؟ ایک طرف بھارت کو پسندیدہ ملک بھی قرار دیا گیا تھا جس پر کافی بحث بھی ہوئی تھی کہ دشمن ملک کو پسندیدہ ملک کا درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے۔‘
جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ کسی کو ملک دشمن قرار دینے سے پہلے تحقیقات کرنا ہوتی ہیں اور قانون کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ عدالت کو بھی دینا ہوتی ہے۔ اب تک کتنی تحقیقاتی رپورٹس عدالتوں کو جمع کرائی گئیں؟
اٹارنی جنرل سے زیرحراست افراد کے مقدمات پر نظرثانی پر مبنی رپورٹ طلب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو مطمئن کرنا حکومت کا کام ہے۔ ’آگاہ کریں کتنے مقدمات ختم کیے گئے یا عدالتوں کو بھیجے گئے مکمل تیاری کے ساتھ آئیں جواب نہ ملا تو فیصلہ کر دیں گے کیونکہ ہم ہر زیرحراست شہری کے حوالے سے فکرمند ہیں۔‘
مقدمہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ نے اکتوبر 2019 میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن آرڈینسن کو ختم کئے جانے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کے لیے 25 اکتوبر 2019 کو ایک بڑا بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ اس مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ دیگر ججوں میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس مشیر عالم شامل ہیں۔ عدالت عظمی نے اس اپیل پر خود کسی فیصلے تک پہنچے تک پشاور کی عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ نے 17 اکتوبر کے اسے فیصلے میں ان حراستی مراکز کو تین روز صوبائی پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔
گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔ انہیں ان مراکز میں رکھنے کا بھی حق دیا گیا تھا۔
تاہم 20نومبر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں وفاق کا اختیار ہے۔
آئین میں 25ویں ترمیم سے قبل قبائلی علاقہ جات آرٹیکل 247 کے تحت چلائے جاتے تھے، جس میں صدر مملکت کو فاٹا اور پاٹا میں قانون سازی کا اختیار حاصل تھا۔ 2011 میں صدر نے ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشز کو نافذ کیا تھا جس کا اطلاق فاٹا اور پاٹا پر ہوتا تھا۔اس قانون کے تحت سابق قبائلی علاقوں اور سوات میں سکیورٹی فورسز کے تحت سات حراستی مراکز قائم کئے گئے تھے جن میں اٹارنی جنرل کی معلومات کے مطابق اب بھی ایک ہزار سے زائد افراد کو شدت پسندوں سے روابط کے شک میں رکھا گیا ہے۔