ریپ کو تاریخ میں بطور جنگی ہتھیار کیسے استعمال کیا گیا، اس کی ایک مثال ایران کے قاچار خاندان کے بادشاہ فتح علی شاہ قاچار (وفات 1864) کی ہے جس نے قفقاز کے علاقے پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا تو اس کے فوجیوں نے نہ صرف مفتوحہ عورتوں کا ریپ کیا بلکہ ان کی دائیں رانوں کی ایک رگ کاٹ کر انہیں زندگی بھر کے لیے اپاہج بھی کر دیا۔
جب بھی یہ عورتیں لنگڑا کر چلتیں تو دیکھنے والے پہچان لیتے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن کا ایرانی فوجیوں نے ریپ کیا تھا۔ یہ کوئی غیر معمولی مثال نہیں۔ پدرسری نظام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اس نظام میں عورت مرد کی ملکیت ہوتی ہے اس لیے جنگ کی صورت میں فاتح مال غنیمت میں عورتوں کو بھی شامل کرتے ہیں اور انہیں اسی طرح سے فوج کے افسروں اور عہدے داروں میں تقسیم کرتے تھے جیسے سونا، چاندی، ہیرے اور جواہرات۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زمانہ قدیم ہی سے مفتوحہ علاقوں کی خوبصورت ترین عورتیں بادشاہ کے حرم کے لیے بطور تحفہ دی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دستور تھا کہ شکست خوردہ قوم کی عورتوں کا ریپ کیا جاتا، خاص طور سے جنگ میں ہارے ہوئے بادشاہ کے حرم کی عورتوں کو اس کا نشانہ بنایا جاتا تھا، جس کا مقصد دشمن کی ملکیت یعنی عورتوں کی تذلیل کر کے اپنی فتح مندی کو ثابت کرنا ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ یہ مقصد بھی ہوتا تھا کہ عورت جو خاندان کے جاں نشین پیدا کرتی ہے اور ایک نسل تسلسل کو برقرار رکھتی ہے۔ مفتوحہ عورتوں کے ریپ کے ذریعے ایک منصوبے کے ساتھ نسل کو آلودہ کیا جاتا ہے۔
جب اکبر کی فوجوں نے 1562 میں ادھم خان کی سربراہی میں مالوہ پر حملہ کیا تو اس کے حکمران باز بہادر کو شکست ہوئی۔ باز بہادر اور اُس کی محبوبہ روپ متی کی محبت کے قصے مشہور تھے۔ مالوہ کا دارالحکومت مانڈو رقص، موسیقی کی وجہ سے مشہور تھا۔ فتح کے بعد مانڈو سے اٹھنے والے مدھر گیت خاموش ہو گئے۔ بعض بہادر تو فرار ہو گیا مگر روپ متی وہیں رہی۔
ادھم خان نے پہلے بعض بہادر کے حرم کی دو کنیزوں کا ریپ اور پھر روپ متی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہا۔ روپ متی نے زہر کھا کر جان دے دی۔ ادھم خاں کی ماں ماہم انگہ نے اس خیال سے کہ کنیزیں اکبر کو خبر نہ دے دیں، ان دونوں کنیزوں کو مروا کر اپنے بیٹے کے کرتوں کو چھپایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اکبر نے بھی درگزر سے کام لیا۔ ہمیں تاریخ میں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب جنگ کے بعد فوجیوں نے عورتوں کا ریپ کیا اور انہیں کنیزیں بنا کر بازاروں میں فروخت بھی کیا۔
قدیم اور عہد وسطیٰ میں ہونے والی جنگوں میں یہ دستور تھا کہ فتح کے بعد شکست خوردہ قوم کے مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے قتل کر دیا جاتا تھا تاکہ اُن کے خلاف لڑنے والا کوئی نہ رہے اور پھر نوجوان عورتوں کو گرفتار کر کے اُن کا ریپ کیا جاتا اور اُنھیں بازار میں بطور کنیز فروخت کیا جاتا۔
یہودیوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو شکست خوردہ قوم کی لڑکیوں کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ سکندر نے بھی جب غزہ پر حملہ کیا تو مردوں کو قتل کرکے یونانیوں نے اُن کی عورتوں کا ریپ کیا، لہٰذا شکست کے بعد لوگ اپنی لڑکیوں کو جنگلوں اور پہاڑوں میں چھپا دیتے تھے تاکہ اُن کی عزت محفوظ رہے لیکن جدید دور میں سب سے زیادہ ظلم و ستم چاپانیوں نے کیا، جب انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں چین پر حملہ کر کے نان کِنگ شہر میں مردوں کا قتل عام کیا۔
جس کی تصاویر شہادت دیتی ہیں کہ شہر کے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے نوجوان لڑکیوں کو تلاش کر کے اُن کا ریپ کیا اور جب ان کو چھپا دیا گیا تو اُن کی ماﺅں کا ریپ کر کے لڑکیوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے جب کوریا پر قبضہ کیا تو وہاں سے عورتوں کی بڑی تعداد کو اس پر مجبور کیا وہ جاپانی فوجیوں کی جنسی ہوس کو پورا کریں۔ یہ عورتیں کمفرٹ ویمن (Comfort Women) کہلائیں۔ جنگ کے خاتمے اور جاپان کی شکست کے بعد جب ان عورتوں نے اپنی درد بھری داستانیں سنائیں تو اندازہ ہوا کہ جاپانیوں نے کس سفاکی کے ساتھ ان عورتوں کی زندگی کو تباہ کیا۔ اب تک ان میں سے جو خواتین زندہ ہیں، وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ جاپانی حکومت ان پر ہونے والے ظلم کا معاوضہ ادا کرے۔
جاپان کے اس رویے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عورت کی حیثیت جنسی خواہشات پورا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھی اور مفتوحہ عورتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ان کے لیے جائز تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خود جاپانی معاشرے میں عورت کا درجہ گرا ہوا تھا اور یہی وہ ذہنیت تھی جس نے مفتوحہ عورتوں کے ریپ کو استعمال کیا۔
ریپ اور بھی کئی دردناک مثالیں ہیں۔ مثلاً دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کی شکست کے بعد روسی فوجی وہاں گئے تو انہوں نے بھی اپنی فتح کے نتیجے میں جرمن عورتوں کا بطور انتقام ریپ کیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی نشاندہی کی ہے کہ فوجی ایکشن کے بعد اُن کی عورتوں کا بڑے پیمانے پر ریپ کیا گیا تھا اور انہوں نے حاملہ ہونے کے بعد بچوں کو جنم بھی دیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ثبوت اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیے ہیں۔
1947 میں ہونے ہندو مسلم فسادات میں بھی عورتوں کی عزت محفوظ نہیں رہیں۔ عورتوں کی اغوا کیا گیا اور ریپ کا وارداتیں بڑے پیمانے پر کی گئیں۔
تقسیم کے بعد ایک معاہدے کے تحت دونوں جانب سے اغوا شدہ عورتوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ یہ ایک دردناک صورت حال تھی کیونکہ واپس کرنے والی عورتوں کی اُن کے خاندان والوں نے بھی بدنامی کے خوف سے بمشکل قبول کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں عورت کی حیثیت کس قدر نازک ہے اور پدرسری نظام کی روایات کس قدر مستحکم ہے۔