ماتا ہری اور نور النسا: دنیا کی مشہور جاسوسائیں

ماتا ہری پہلی عالمی جنگ اور نور النسا دوسری عالمی جنگ میں مشہور جاسوس عورتوں کے روپ میں سامنے آئیں۔

ماتا ہری کو جرمنوں نے انگریزوں کی جاسوسہ ہونے کے الزام میں گولی سے اڑا دیا (پبلک ڈومین)

دوسری جنگ عظیم کی مشہور ترین جاسوس ہیروئن نورالنسا تھیں جس کا باپ عنایت خان ہندوستانی تھا اور ماں امریکن تھی۔

اس نے دوسری جنگ عظیم میں بطور برطانوی جاسوس عورت کی جاسوسی کی خدمات سرانجام دیں۔ اسے جاسوسی کے کام کے عوض مرنے کے بعد جارج کراس کا ایوارڈ دیا گیا جو برطانیہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ حال ہی میں برطانوی حکومت نے لندن میں اس کے مجسّمے کی نقاب کشائی کر کے اُس کے کارناموں کا اعتراف کیا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران نور النسا پہلی جاسوس عورت تھی جس نے وائرلیس آپریٹر کی خدمات سرانجام دیں اور جسے پہلی جنگی جاسوس ہیروئن ہونے کا اعزاز بھی ملا۔ اُس نے فرانس میں مزاحمتی تحریک میں جرمنوں کے خلاف فرانسیسیوں کی مدد کی۔ فرانس جو اُس وقت جرمنی کے قبضے میں تھا۔ یہ فرانسیسی مزاحمت کاروں کی مدد کے لیے وہاں گئی تھی لیکن اُس وقت اس کا راز فاش ہوا جب اس کے ایک ساتھی نے اس کی مخبری کی جو ڈبل ایجنٹ کا کام کر رہا تھا۔

13 اکتوبر 1943 میں نورالنسا کو جرمن خفیہ ایجنسی گسٹاپو نے گرفتار کرلیا۔ جہاں سے دو مرتبہ فرار ہونے کی اس کی کوششیں بے کار گئیں۔ اس کی تفتیش کے دوران جرمنوں کو اس کے متعلق کوئی ایسی معلومات نہ ملیں جن سے اس کا جاسوس ہونا ثابت ہو کیونکہ اس نے سوائے اپنی ذاتی معلومات کے اور کسی قسم کا مواد اُنہیں فراہم نہ کیا۔ اس چھان بین کے دوران تفتیش کرنے والوں کو ایک ڈائری ہاتھ آئی جس میں سے چند خفیہ معلومات کی ترسیل کی تفصیل سامنے آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

25 اکتوبر 1943 کو نورالنسا فرار ہوگئیں لیکن وہ ابھی زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ انہیں دو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ یہاں اس سے ایک حلف نامہ سائن کرنے کو کہا گیا لیکن اس نے سائن کرنے سے انکار کر دیا تو اسے مزید تفتیش کے لیے جرمن لے جایا گیا جہاں اسے 10 ماہ کے لیے قید تنہائی کی سزا دی گئی۔ یہاں سے نورالنسا کو ایک کنسٹریشن کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ 13 ستمبر 1943 کو اس کیمپ میں نور النسا کو اس کے دوسرے ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا جن پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا تھا۔

نور النسا کے علاوہ 20 ویں صدی کی ایک اور مشہور جاسوس خاتون ماتا ہری ہے، جسے اس جرم کی پاداش میں موت کی سزا ہوئی۔

یہ ہالینڈ کی رہنے والی تھیں اور ان کا اصل نام مارگریٹ تھا مگر جب وہ فیشن کی دنیا میں داخل ہوئیں تو اپنا نام ماتا ہری رکھ دیا جو لوگوں کے لیے بڑا رومانوی تھا۔ وہ انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور دوسرے ملکوں میں رہی اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے خاص طور سے فوج کے اعلیٰ افسروں میں بڑی مقبول تھیں۔ جب وہ فرانس میں تھی تو اس کے تعلقات جرمن سفارت کاروں اور فوجی افسروں سے تھے۔ اس وجہ سے پہلی جنگ عظیم کے دوران اس پر جاسوس ہونے کا شبہ ہوا۔

جب وہ فرانس سے برطانیہ آئیں تو یہاں سکاٹ لینڈ نے اس سے پوچھ گچھ کی لیکن جاسوسی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس پر شبے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بڑی ٹھاٹھ کی زندگی گزارتی تھی، اس لیے شبہ تھا کہ وہ جاسوسی کے ذریعے پیسے لیتی ہیں۔ جب وہ 1915 میں واپس فرانس گئیں تو انہیں جرمن جاسوسی کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا اور عدالتی کارروائی کے بعد 15 اکتوبر 1917 میں فائرنگ سکواڈ کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے موت کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ آنکھوں پر پٹی باندھنے سے بھی انکار کر دیا اور فائرنگ سکواڈ کو ’فلائنگ کِس‘ بھی دی۔

موت کے بعد ماتا ہری کی شخصیت پُراسرار بنتی چلی گئی۔ جنگ کے بعد جرمن حکومت نے اس سے انکار کیا کہ وہ ان کی جاسوس تھی۔ جب وکلا نے ان کے مقدمے کا ریکارڈ چیک کیا تو اس میں کہیں بھی ان پر جاسوسی کا الزام ثابت نہ ہوتا تھا۔ ماتا ہری کے اس المیے پر کئی کتابیں لکھی گئیں اور فلمیں بھی بنائی گئیں۔ موت نے اسے ایک رومانوی شخصیت بنا دیا۔

ماتا ہری اپنی نوعیت کی واحد خاتون نہیں تھیں۔ جاسوسی کا ادارہ بہت قدیم ہے۔ حکمران رعایا کی رائے کے بارے میں معلومات اور ملک میں جو حالات ہوتے ہیں ان سے باخبر رہنے کے لیے جاسوسوں کا تقرر کرتے تھے جو براہ راست ان کو اطلاعات فراہم کرتے تھے۔

ان جاسوسوں میں شاید عورتیں بھی شامل ہوں جس کے بارے میں ہمارے پاس شواہد تو نہیں ہیں مگر جیسا کہ تاریخ فیروز شاہی کے مصنف برنی نے لکھا ہے کہ امرا کے گھروں میں رات کی محفلوں میں جو کچھ ہوتا تھا اس کی اطلاع صبح علاء الدین خلجی کو مل جاتی تھی۔

ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی دیسی ریاستوں میں جاسوس مقرر کر رکھے تھے۔ امکان غالب ہے کہ ان میں عورتیں بھی تھیں کیوں کہ جب 1857 میں انگریزوں نے دہلی کا محاصرہ کیا تو ان کے جاسوس شہر کے بارے میں انہیں گھریلو معلومات تک فراہم کرتے رہے۔ یورپی ملکوں میں ہر ملک سفارت کاری اور جاسوسی کے ذریعے حالات سے واقف رہتے تھے۔

عورتوں کو جاسوسی کے ادارے میں اس لیے شامل کیا جاتا تھا کیونکہ وہ اپنی خوبصورتی اور دل لبھانے والی اداﺅں سے بہت جلد اعلیٰ افسروں کے قریب ہو جاتی تھیں اور کبھی وہ اپنی محبت کا یقین دلا کر اور کبھی اُنہیں بدنامی سے ڈرا کر خفیہ راز حاصل کر لیتی تھیں۔ ان جاسوس عورتوں کے بارے میں ہماری معلومات اس لیے نہیں کیونکہ ان کے نام خفیہ رکھے جاتے تھے اور بعد میں ساری دستاویزات کو تلف کر دیتے تھے۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہر ملک نے منظم جاسوس ادارے قائم کیے اور مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی تقرر کیا کیونکہ یہ کام پُرخطر ہوتا تھا اس لیے عورتوں کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی۔ وہ دو تین یورپی زبانیں جانتی تھیں اور اگر وہ گرفتار ہو جائیں تو قیدوبند کی صعوبتوں اور اذیتوں کو برداشت کرنا ہوتا تھا۔ اگر سزائے موت ہو جائے تو اس کے لیے بھی تیار رہنا ہوتا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران عورت جاسوسوں کی جو سرگرمیاں ریکارڈ ہوئیں تو ان پر این کارم کی کتاب Women War time Spies قابل ذکر ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے تفصیل کے ساتھ انگلستان اور جرمنی کے دوران جاسوس عورتوں کی سرگرمیوں کا ذکرکیا ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے ان خواتین کی نگرانی شروع کی جن کا تعلق آسٹریا اور جرمنی سے تھا اور جو شادی کے بعد برطانیہ میں مقیم تھیں۔ تحقیق کے دوران برطانیہ کے سراغ رساں اداروں نے ان میں سے کچھ عورتوں کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا۔ انہیں قید و بند کی سزائیں دی گئیں اور کچھ کو سزائے موت بھی دی گئی۔

جرمنی نے بھی جاسوسی کے جرم میں جب عورتوں کو سزائے موت دی تو اس پر دوسرے ملکوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا مگر جرمن حکومت کی دلیل یہ تھی کہ سراغ رسانی کا جرم عورتوں اور مردوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے اور قانون کو عورت اور مرد کے درمیان تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

پہلی جنگ عظیم میں جرمن جاسوس عورتوں کا کردار ہے کہ جنہوں نے مردوں کی جنسی خواہشات پوری کر کے ان سے معلومات حاصل کیں اور انہیں جرمنی تک پہنچایا۔

برطانیہ نے بھی جاسوس عورتوں کے ذریعے جرمن افواج کی خفیہ نقل و حمل کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ یہ کام ان جاسوس عورتوں نے کیا جو بلجیئم میں جا کر رہیں اور جرمن افواج اور ان کے منصوبوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ انہوں نے بلجیئم کے ان فوجی افسروں کے فرار میں بھی مدد کی جو جرمنوں کی قید میں تھے۔

دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ نے ایک منظم جاسوسی کا ادارہ قائم کیا جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں اور عورتوں کا تقرر کیا گیا۔ ان کی تربیت کی گئی اور ان میں وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو پہلی جنگ عظیم میں جاسوس رہ چکی تھیں اور تجربہ کار تھیں۔ ان عورتوں پر یہ لازم تھا کہ وہ اپنے کام کے بارے میں خاموش رہیں اور اس کے متعلق کسی سے بات چیت نہ کریں۔ ان عورتوں نے خاص طور سے جرمنی کے خفیہ کوڈ کو دریافت کر کے ان کے پیغامات کو پڑھ لیا جس کی وجہ سے اتحادی افواج کو جرمن منصوبوں کے بارے میں بے انتہا مفید معلومات مل گئیں۔

چرچل نے ان عورتوں کے کارناموں کو سراہتے ہوئے انہیں ایسی بطخوں سے تشبیہ دی جنہوں نے سونے کے انڈے دیے تھے۔ یہ عورتیں جن عہدوں پر کام کرتی تھیں ان میں ٹائپسٹ، کمپیوٹر آپریٹر، ٹیلی گراف آپریٹر، وائرلیس آپریٹر تھے، لیکن یہ ایک دوسرے کے کام سے بالکل بے خبر رہتی تھیں۔

جنگ کے بعد تمام معلومات جو جاسوس عورتوں کے ذریعے اکٹھی کی گئی تھیں ان کو جلا دیا گیا۔ اس جاسوس ادارے کو بند کر دیا گیا۔ مشینیں جو اس کام کے لیے خریدی جاتیں ان کو بےکار کر کے سکریپ کر دیا گیا تاکہ کسی بھی قسم کی خفیہ معلومات کے نشانات ملنے کا کوئی ذریعہ نہ رہے۔

جاسوسی کی یہ سرگرمیاں دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی جاری رہیں۔ خاص طور سے سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ اور روس ایک دوسرے کے اسلحے کے بارے میں جاسوسوں کے ذریعے معلومات اکٹھی کرتے تھے۔ جاسوسوں میں عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ موجودہ دور میں بھی ہر ملک کے جاسوسی ادارے ہیں، جو اندرونی اور بیرونی معلومات اکٹھی کرکے ریاست کی پالیسیاں بنانے میں مدد کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ