علاء الاسوانی ایک اچھے انسان ہیں، وہ ایک رومانوی شخصیت کے مالک انسان ہیں، اتنے رومانوی کہ ان کو انقلابوں سے پیار ہے۔ اور وہ یہ یقین کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں کہ منتخب صدروں کو معزول کرنے والے جرنیلوں پر پہلے پہل اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
تاہم میں اس بات سے بالکل بھی حیران نہیں ہوں کہ مصر سے تعلق رکھنے والے اس عظیم مصنف نے آمریت کو اب ایک سنڈروم تسلیم کر لیا ہے، ایک ایسی طبی حالت جس کی تشخیص بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن نہیں، مجھے خدشہ ہے کہ یہ بیماری قابل علاج بھی ہے۔
میں یہاں یہ اضافہ بھی کرنا چاہوں گا کہ الاسوانی ایک اور شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں جس سے میں ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہوں، وہ ڈنٹسٹ بھی ہیں۔ وہ ایک اچھے آدمی ہیں پھر بھی مصری انقلاب کے سڑے ہوئے دانتوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا تازہ ترین کام ان کی کتاب ’دا ڈکٹیٹرشپ سنڈروم‘ ہے، اگرچہ یہ کتاب ان کے ناولوں جتنی متاثر کن نہیں ہے پھر بھی اس سے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا خون کھول سکتا ہے۔ السیسی نے 2013 میں اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے سابق منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار پر قنضہ کر لیا تھا۔
السیسی پہلے ہی ان کے گذشتہ کتاب ’دا رپبلک، ایز اِف کیم آؤٹ‘ سے ناخوش تھے۔ الاسوانی نے مجھے 2014 میں بتایا تھا کہ ان کی یہ کتاب آمریت کی شکل کے بارے میں ہے کہ اگر یہ حقیقی ہو تو یہ کیسے دکھائی دیتی ہے، اور یہ شفاف انتخابات اور حکومتی اداروں اور اسی طرح کی چیزوں کے بارے میں بھی ہے اگر حقیقت میں ایسا ہوتا۔
ہماری ملاقات کے کچھ ہی عرصہ بعد اچانک الاسوانی پر مصر میں ہفتہ وار کالم لکھنے اور سرکاری میڈیا پر آنے پر پابندی لگا دی گئی۔
وہ اخوان المسلمین کے بھی مستقل ناقد رہے ہیں لیکن جب میں نے ان سے 2018 میں پوچھا کہ 2011 کے عرب سپرنگ میں اقتدار سے بے دخل ہونے والے حسنی مبارک اور موجودہ آمر السیسی میں کیا فرق ہے تو انہوں نے بتایا کہ السیسی کی حکومت بدتر ہے کیوں کہ آج السیسی کی آمریت ایک زخمی شیر کی مانند ہے۔
زخمی شیر ہمیشہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ عام شیر کو خود پر اعتماد ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ مضبوط ہے اس لیے اسے کسی پر حملہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جبکہ زخمی شیر اپنے زخم نہیں بھول پاتا اور اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اس کے زخم مزید گہرے ہو سکتے ہیں اسی لیے وہ ہر ایک پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔
2019 کے موسم بہار میں اسی طرح کے ایک زخمی شیر نے الاسوانی پر حملہ کیا۔ اب ان پر ریاستی سکیورٹی کے اداروں کی جانب سے عوامی سیمیناروں میں جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم جب انہوں نے فوجی افسران کو سِول اداروں میں تعینات کرنے پر السیسی کی اقربا پروری اور بد عنوانی کو تنقید کا نشانہ بنایا تو مصری صدر نے اس تنقید کو ذاتی طور پر لیا۔
الاسوانی، جو اس وقت تک احتیاطاً امریکہ منتقل ہو گئے تھے، پر مصری فوجی استغاثہ کی جانب سے صدر، مسلح افواج اور عدالتی اداروں کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
الاسوانی کا کہنا تھا: ’میرا جرم صرف اتنا ہے کہ مصنف ہونے کی حیثیت سے میں اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں اور السیسی جیسے افراد پر تنقید کرنا جو اس کے مستحق ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مصری فوجی استغاثہ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’اگر میرا جرم یہ ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کھلے عام کرتا ہوں تو میں اسے قبول کرتا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔‘
میں یہ تفصیل صرف اس لیے بیان کر رہا ہوں کیونکہ ابتدا میں الاسوانی السیسی پر بہت کم تنقید کرتے تھے۔ 2011 میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے قاہرہ میں ملٹری سروس کی عمارت میں السیسی سے ملاقات بھی کی تھی۔
’میں نے تنتوی (جو اس وقت بھی مصری فوج کے کمانڈر تھے) کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا جس سے السیسی ناخوش تھے۔ میں نے انہیں (السیسی سے) کہا کہ مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں جو کچھ سوچتا ہوں وہ تحریر کروں اور اگر وہ چاہیں تو مجھے گرفتار کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے گرفتار نہیں کریں گے۔ ان کا رویہ دوستانہ تھا۔ مجھے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ تنتوی کے فیصلوں سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ میں نے السیسی کے بارے میں اچھا تاثر قائم کر لیا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں اس شخص پر اعتماد کرسکتا ہوں۔‘
میری طرح لاکھوں مصریوں نے بھی ان پر اعتماد کیا۔ اس وقت کے ایک اخبار میں الاسوانی نے تسلیم کیا کہ مرسی کی حکومت کے خلاف تین کروڑ افراد احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے جو فوج سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ سراسر غلط اعداد و شمار تھے۔
انہوں نے لکھا: ’اس کی وجہ سے عوام کی خواہش پر عمل درآمد اور ریاست کی تباہی کو روکنے کے لیے ’محب وطن‘ فوج کے ہاتھ ایک بہانہ آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مصری عوام کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
انتہائی معزز اور تجربہ کار مصری صحافی مرحوم محمد ہیکل بھی ابتدائی طور پر السیسی کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات رکھتے تھے تاہم انہوں نے اپنی موت سے چار سال قبل ہی فوجی آمر کے لیے اپنی حمایت واپس لینا شروع کر دی تھی۔ اسی طرح سابق مقتول صدر کے بھانجے اور رکنِ پارلیمان انور سادات کے بھی جلد ہی پَر کاٹ دیے گئے۔ لیکن یہ سب واقعات اہم سوال اٹھاتے ہیں: کیا آمریت واقعتاً ایک بیماری ہے، جیسا کہ الاسوانی نے اپنی نئی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے؟
مجھے ڈر ہے کہ مصائب کا بہت زیادہ شکار لوگ اور وہ افراد جن کا رویہ اسوانی اور ان کے دوستوں کی جانب سے طبی بنیادوں پر جائزہ لیے جانے کے زیادہ لائق ہے، ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ نہ صرف آمر کا حکم مانتے ہیں چاہے وہ خوف کی وجہ سے ہو یا بدعنوانی کی وجہ سے لیکن حقیقت میں وہ اپنے اوپر حکومت کرنے والے ان مصیبت کے ماروں سے محبت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان کے بارے میں انتہائی باوقار شاعری کرتے ہیں یا وہ مکروہ اور گھٹیا منتر پڑھتے ہیں جو مجھے اکثر عرب دنیا میں سننا پڑتا ہے: ’اپنے خون، اپنی روحوں سے ہم آپ کے لیے اپنی قربانی دیتے ہیں۔‘
آپ اعتماد سے نفرت کی طرف کس طرح جاتے ہیں؟ اسوانی اور ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ دوست کبھی ایسے وعدے پورے نہیں کریں گے۔ وہ ان صحافیوں اور اینکروں کے گروپ سے بالاتر ہیں جنہوں نے مصر میں جنرل السیسی کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوجی وردی میں ٹیلی ویژن پر آنے کے بعد ان کے لیے اپنی نئی نئی محبت کا اظہار کیا۔
مصری عوام کو اسی حالت کی جانب لے جانے کے اس عمل کی جڑیں بہت گہری ہیں، وہ عوام جنہوں نے حسنی مبارک کے ٹھگوں سے جان چھڑوائی لیکن دو سال بعد انہیں سیسی کے غنڈوں کا استقبال کرنا پڑا۔
مجھے ہمیشہ لبنان کے خلیل جبران کی نظم ’نبی کا باغ‘ یاد آ جاتی ہے جس میں انہوں نے رونا رویا ہے: ’جو قوم اپنے شادیانے بجا کر نئے حکمران کا خیرمقدم کرتی ہے اور نعروں کے ساتھ رخصت کرتی ہے وہ صرف اتنا ہی کرتی ہے کہ ایک اور حکمران کے لیے شادیانے بجاتی ہے۔‘
شاید ایک مختلف قسم کی بیماری ان لوگوں کو لپیٹ میں لے رہی ہے جو ایک آمر کا استقبال کرتے ہیں؟ شاید یہ سردار کی حکومت کی لت ہو؟ پولینڈ کے صحافی اور مصنف ریشارد کپوشینسکی نے ایران کے پہلوی تاج کے زوال کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک ایک چھوٹے اور تابع دار بیوروکریٹ کی نشاندہی کی ہے جو شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفار تھے۔ جب یہ بیوروکریٹ اپنے چھوٹے سے گھر پہنچے تو آمرانہ زہر کے زیر اثر اپنے گھر والوں پر حکم چلایا۔ اس وقت وہ اسی شاہی دبدبے کے اثر میں تھے جس کا اظہار وہ اپنی شاہی آقاؤں کی خدمت بجا لاتے ہوئے کرتے تھے۔
یقیناً امریکی شاعر ڈبلیو ایچ اوڈین نے’عوام‘کے پاگل پن اور فرماں برداری کا اتنا اچھا احاطہ کیا ہے کہ بہت سے لوگ ان کی 1939 میں لکھی گئی نظم کو آمر صدام حسین کے ساتھ جوڑیں گے: ’وہ جس قسم کا کمال چاہتا تھا جو شاعری اس نے کی لوگ اسے آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔ وہ انسانی نادانی کو اپنی ہتھیلی کی پشت کی طرح جانتا تھا اور افواج اور فوجی بیڑوں میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ جب وہ ہنسا تو قابل احترام سینیٹروں نے قہقہہ لگایا…اور جب آمر رویا تو گلیوں میں چھوٹے بچوں کی موت ہو گئی۔‘
مغرب میں جہاں یورپی آمریتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں ہم کسی نہ کسی طرح آج کے آمروں کے ساتھ زندہ ہیں جو جب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ ’میں ہمارے اتحادی ہیں یا تیل اور قدرتی گیس سے حاصل ہونے والی بے پناہ دولت کے مالک ہیں یا کھربوں ڈالر کے ہمارے بمبار جنگی طیارے، میزائیل اور ٹینک خریدتے ہیں، اپنے ہی لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔
روسی اتحادی کی حیثیت سے شام کے صدر بشارالاسد کا مزید بدنام ہونا باقی ہے۔ مصر میں 60 ہزار سیاسی قیدیوں کے ساتھ سیسی ’میرا پسندیدہ آمر‘ ہے۔
حتیٰ کہ گذشتہ صدی کے یورپی آمر اچھا خاصا ایک مسخرے کے مرتبے کو پہنچ سکتے ہیں کہ خود ہمارے جوازوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیں۔ اٹلی میں لکھی گئی ایک کتاب میں عوامیت پسند دائیں بازو کی تحاریک کے الفاظ میں کہا گیا ہے کہ’مسولینی نے نسل پرستانہ قوانین اور ہٹلر کے ساتھ اتحاد سے پہلے بہت اچھے کام کیے۔‘
نئی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور وسطی اٹلی کے دلدلی علاقے پانی کی نکاسی کو مسولینی منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ فاشسٹ حکام نے صرف چھ فیصد ترقیاتی کام کروائے۔ کتاب کے مطابق ریٹائرمنٹ پر پینشن بھی مسولینی کا کام تھا لیکن یہ غلط ہے۔ پینشن سب سے پہلے 1895 میں متعارف کروائی گئی تھی۔ یہودی مخالف قوانین 1938 میں نافذ کیے گئے۔
یہ درست ہے کہ آج کے دور کے آمروں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں ان کی غیرمعمولی ذہانت پر سراہا جائے۔ سیسی کی ’نئی‘ نہر سویز، حقیقت میں دو آبی دھارے رکھتی ہے جس کی بدولت زیادہ تعداد میں بحری جہاز مخالف سمت میں ایک دوسرے کے قریب سے گزر سکتے ہیں لیکن اس سے نہر سے ہونے والی آمدن میں اضافہ نہیں ہوا۔ قاہرہ سے باہر میگا سٹی کا سلسلہ اطالوی فاشزم کی مصری شکل ہو سکتی ہے۔ اسوانی یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح لیبیا میں معمر قذافی نے انسانی ہاتھوں سے بنائے جانے والے بڑے دریا کے منصوبے کو عملی شکل دی۔ اب ہٹلر کے ’نئے‘ برلن اور ان کے قطب شمالی سے سباسٹوپول نازی موٹر منصوبے کو کون یاد کرتا ہے؟ کوئی ان کے اس پاگل پن کا کیا کرے گا؟
کیا آمر واقعی اپنے لیے القابات پر یقین رکھتے ہیں؟ اسوانی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ قذافی کو کرنل، رہنما، لیبیا کے انقلابی رہنما، عرب قوم پرستی کے محافظ، عرب حکمرانوں کے ڈین، افریقہ کے بادشاہوں کے بادشاہ، طوارق (صحرائی خانہ بدوش) کے کمانڈر، ساحلی اور صحرائی ممالک کی تنظیم کے رہنما، مقبول اسلامی لیڈرشپ کے رہنما اور مسلمانوں کے امام القابات سے پکارا جاتا تھا۔
ہم تیونس کے بن علی کی طرح یوگنڈا کے عیدی امین، ایک اور آمر جو سعودی عرب جا کر موت سے ہمکنار ہوئے، کو بھی یاد کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو زمین کے تمام درندوں اور سمندر کی تمام مچھلیوں کا آقا اور افریقہ میں بالعموم جبکہ یوگنڈا میں بالخصوص برطانوی سلطنت کا فاتح قرار دیا۔
یہ ایک بات ہے کہ مستقبل کے آمروں کے خاندانوں میں توہین اور انتقام کے پہلو تلاش کیے جائیں لیکن آمریت کی علامات میں وقت کے ساتھ کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں اسوانی نے اس کا کھوج اس طرح لگایا ہے کہ پہلے’مطلق اختیارات کے حصول کی خواہش‘ ہوتی ہے جس کے بعد ’شان و شوکت کی ہوس‘ کی باری آتی ہے اور اس کے بعد ’انتہائی قسم کی تنہائی‘ کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ اسوانی کے مطابق موخر الذکر کا نتیجہ ’غلط فیصلے‘ کی صورت میں نکلتا ہے اگرچہ میرے خیال میں اکثر ایسا نہیں ہوتا۔
اسوانی کہتے ہیں کہ کئی طرح کے دھوکوں سے بھری دنیا میں زندہ رہنے والا ایک آمر’اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو ایسی کار چلا رہا ہو جس کی بریکیں یا پیچھے کا منطر دکھانے والا آئینہ نہ ہو۔ وہ اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہو کر گاڑی چلاتا ہے اور خواہش کے باوجود کار کو روک نہیں سکتا۔ کار خوفناک حادثے کا شکار ہو جائے گی۔‘
اچھا تو اس صورت حال کا اطلاق مسولینی پر ہوتا ہے۔ ان کا یونان پر حملہ، ہٹلر کا سوویت یونین پر حملہ، اور میرا خیال ہے کہ صدام حسین بھی انہی حالات کا شکار ہوئے جنہوں نے ایک ملک پر کئی بار حملہ کیا۔ ہم اس وقت خوش تھے کہ جب انہوں 1980 میں ہمارے سخت دشمن ایران پر حملے کا اغاز کیا۔ لیکن ہمیں اس وقت غصہ آ گیا جب انہوں نے 1990 میں ہمارے دوست اور اتحادی کویت پر چڑھائی کی۔ لیکن اسوانی تسلیم کرتے ہیں کہ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو 1967 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مکمل شکست کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
یاسر عرفات نے ایک کے بعد ایک شکست کے دوران فلسطینیوں کی قیادت کی حتیٰ کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کے سبزہ زار میں اسرائیلی صدر کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ انہوں نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے جو ان کے لوگوں کے لیے ایک لعنت ثابت ہوا ہے۔
کیوں؟ اسوانی دوبارہ یہ سوال یہ کرتے ہیں۔ مصری عوام ملک کی فوجی طاقت کے طورپر مکمل تباہی کے بعد جمال عبدالناصر کے حامی رہے حالانکہ برطانوی عوام نے دوسری عالمی جنگ میں فتح کے بعد وزیراعظم چرچل کی فتح کے بعد انہیں مسترد کر دیا تھا۔ یہاں مصنف 16 ویں صدی کے فرانسیسی دانشور ایتیئن ڈی لا بوئیتی اور ان کے رضا کارانہ غلامی کے بیانیے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ انہوں نے منطقی نظریہ پیش کیا تھا کہ آمریت صرف آمر کی خواہش سے جنم نہیں لیتی بلکہ ’ایک انسانی تعلق ہوتی ہے جس میں دو فریقوں کا ہونا ضروری ہے: آمر جو لوگوں کو غلام بنانے کا فیصلہ کرتا ہے اور لوگ جو ایسی غلامی قبول کر لیتے ہیں۔‘
رضاکارانہ غلامی سے کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ وہ گھوڑا جو رام ہونے تک مالک کا حکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور اس کے بعد وہ خوشی سے میدان کے گرد اور ایک طرف ہو کر خوشی سے ناچتا ہے اور مرضی سر جھکا لیتا ہے۔ اسوانی اس لمحے کے بارے میں بات کرتے ہیں ’جب ایک آبادی کچھ آزادیوں پر ہاتھ ہلاتی ہے اور چاہے وہ مفتوح ہو جانے کا نتیجہ ہو یا دھوکے کا فرد واحد کی مرضی کے سامنے سر جھکا دیتی ہے۔‘ یہ فرد واحد آمر بن جاتا ہے۔ ایک آمر کی مرضی کے سامنے’لمبے عرصے‘تک سرجھکائے رکھنے کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔
یوں مصری ناول نگار کو جمال عبدالناصر کے مقبول ہونے کی وجہ کا علم ہو جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’وہ لوگ جو ایک آمر کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں وہ آزادی کی خواہش سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کا رویہ کسی ایسے مریض جیسا ہوتا ہے جس پر جادو کر دیا گیا ہو، نیند طاری کر دی گئی یا وہ ہوش سے بیگانہ ہو۔ مصری عوام آمر کی فرمانبرداری کی طاعون کا شکار ہوئے اور جب آمر کو شکست ہوئی تو وہ اس سے چمٹ گئے۔ دوسری جانب برطانوی شہری (دوسری عالمی جنگ کے بعد) ایک قسم کی نفسیاتی تسکین سے لطف اندوز ہوئے جس کی وجہ سے انہوں نے چرچل کی بجائے کسی اور کو وزیراعظم منتخب کیا۔‘
ایسا بھی ہو سکتا ہے، مجھے شبہ ہے کہ برطانوی شہریوں کو 20 ویں صدی کے آمروں کا اچھی طرح علم تھا اور انہوں اپنی قیمتی اور اب تک زندہ جمہوریت میں محض ایک فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک ہیرو جن کے پاس فتح کی یادوں کے سوا جنگ کے بعد کے لوگوں کو پیش کرنے کے لیے بہت کم تھا کے مقابلے میں ایک سوشلسٹ کو ترجیح دی جو غریبوں اور کم حقوق کے مالک افراد کے لیے نئی زندگی چاہتے تھے۔
بہرحال مجھے یہاں تاریخی حقائق پر ڈھیلی ڈھالی گرفت پر اعتراض کرنا پڑے گا۔ اسوانی کرتے ہیں کہ آٹھ مئی 1945 کو چرچل نے ’جرمنی کے ہتھیار ڈالنے اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے‘ کا اعلان کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ جہاں یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی بات ہے تو ہاں۔ لیکن بحرالکاہل میں جنگ اسی سال اگست تک بذات خود جاری رہتی۔ برطانیہ میں جولائی 1945 کے انتخابات جنگ کے بعد نہیں ہوئے تھے جیسا کہ اسوانی کا دعویٰ ہے۔ لیکن ایک بار پھر، مشرقی وسطیٰ کے بہت سے تاریخ دان ہیں جنہوں نے اپنے حقائق کو بھلا دیا ہے۔ (سب سے زیادہ مقبول وہ دعویٰ ہے کہ سر آرتھر بالفور نے اپنے اعلان پر 1917 میں دستخط کیے جبکہ حقیقت میں وہ صرف 1922 میں ’سر‘ بنے۔)
لیکن اسوانی اپنے آمروں کو جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک آمر ’اپنے لوگوں کو دو مختلف انداز میں دیکھتا ہے... وہ ہمیشہ لوگوں کی ذہانت اور درپیش صورت حال کو اتنے درست طور پر سمجھنے اور جاننے کی حیران کن صلاحیت کہ وہ قوم پرستوں اور غداروں میں تمیز کر سکتے ہیں، اس کے گن گاتے ہوئے انہیں مرکزی مقام دیتا ہے۔ تاہم عملی طور پر ایک آمر کو لوگوں کے آزادانہ طور پر سوچنے کی ان کی صلاحیت پر قطعی طور پر کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ لوگوں کو اس طرح کم تر سمجھنا مکمل طور پر ایک آمر کے حاکمانہ نظریے سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ آپ اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں لیکن آپ معاملات کو اکیلے سنبھالنے کی ان کی صلاحیت پر کبھی بھروسہ نہیں کریں گے۔‘
تاہم اس طرح ایک نکتہ تھوڑا سا نظرانداز ہو جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ مصر کے صدر حسنی مبارک نے 2011 کی اپنی آخری تقریر میں شہریوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنے ’بچے‘ قرار دیا لیکن وہ بچے جن کی ان کے لیے واقعی کوئی اہمیت تھی وہ ان کی سگی اولاد تھی، خاص طور جمال مبارک جن کی مصر کے اگلے آمر کے طور پر تربیت کی جا رہی تھی۔
لیبیا کے صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف نے بھی ملک میں ایسا ہی امتیاز حاصل کرنا تھا۔ خلیجی شاہوں اور شہزادوں کو اب بھی اقتدار وراثت میں ملتا ہے۔ تاج نہ پہننے والے صرف ایک سربراہ مملکت ایسے ہیں جنہوں نے اقتدار اپنے حقیقی بیٹے کو منتقل کیا، وہ شام کے حافظ الاسد ہیں جنہوں نے حکومت اپنے بیٹے باسل الاسد کو منتقل کی۔
کیا معاملات سب سے بڑے بیٹے کے سپرد کرنے کا یہ نظام، یعنی حسب و نسب، خاندان اور والد کی فرمانبرداری اور آباواجداد کی پوجا، آمریت اور مطلق العنان طرز حکومت کا بھی حصہ نہیں ہے جہاں خفیہ پولیس، تشدد اور زیرزمین قید خانے ہوتے ہیں۔
ہم انسان پدرانہ کردار کے حامل افراد کے ہاتھوں تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ مجھے اکثر ایک پرانے عراقی دوست کی یاد دلائی جاتی ہے جنہوں نے مجھے صدام حسین کے بعد اپنے بحران کے بارے میں بتایا: کس کی اہمیت زیادہ ہے: ’صدام حسین کے دور میں آزادی اور لاقانونیت کی یا خوف اور سلامتی کی؟‘
انہوں نے کہا کہ ’میں بس میں سفر کر سکتا تھا اور مجھے پتہ تھا کہ میں اپنے ساتھی مسافر سے کیا بات کر سکتا ہوں، اور کون سی بات مجھے مصیبت میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اب میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ سفر کرنے والا کس طرف کو ہے۔‘