آپ نے مارلن برانڈو، الپچینو اور رابرٹ ڈی نیرو کی فلم ’گاڈ فادر‘ دیکھ سُن رکھی ہو گی۔ یا پھر جن قدر دانوں نے رؤف کلاسرا صاحب کے اس ناول کا اردو ترجمہ پڑھ رکھا ہے یا وہ احباب جن کو دستِ قدرت نے دیکھنے، سُننے اور پڑھنے کی مُسافتوں سے باندھ رکھا ہے، سب کی خدمت میں پیش ہے بارسلونا کے وڈے چوہدری صاحب کی کہانی جن کا اول و آخر صنعت و حرفت اور تجارت کی دعوت ہے اور دعوت سے پہلے عمل خود کر کے دکھایا۔
انہوں نے بارسلونا کو اپنی زندگی کی چار دہائیاں دی ہیں۔ یہ وہ عرصہ ہے جو انہوں نے بارسلونا آنے سے قبل اول کان کُنی دیکھنے کے عالم میں گزارے، کچھ مقامی اکھاڑوں میں پھنے خانوں کے ساتھ باقاعدہ کشتی میں انہیں پچھاڑا۔ سارا گوسا، وسطی اور جنوبی ہسپانیہ میں برقی آلات سے لے کر سونا بیچنے میں کمال حاصل کیا، پیسے جمع کیے اور بارسلونا میں ڈیرے لگائے۔
یہ آج کی بارسلونا کہانی کا نقطہ آغاز ہے جس سے خاکہ کھینچا جا رہا ہے کاتالونیہ کے سب سے بڑے، نفیس اور نظر کی وُسعت و گہرائی سمیٹے کاروباری شخص کا، جس کی مثال پاکستانی نژاد کاروباری حلقوں میں ملنا مشکل ہے۔
چوہدری امانت علی وڑائچ کا آبائی گاؤں پُھلروان ضلع گجرات ہے۔ چوہدری صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور آپ بارسلونا سے 20 میل کی مسافت پر مقیم ہیں۔ بارسلونا سے نکل کر شاہراہ اے ٹو کا صراط مُستقیم ایسا ہے کہ دائیں بائیں بہکنے کا قدرت نے پُورا انتظام کر رکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کاتالونیہ کا دوسرا اہم سیاحتی مقام ہے۔ آپ جوں جوں بارسلونا سے پرے ہٹتے ہیں مونت سیرات آپ کو اپنی آغوش میں لینا شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی 20 میل کے فاصلے پر دائیں جانب مونت سیرات اور بائیں جانب کویّباتو کا قصبہ ہے اور جہاں سے یہ قصبہ شروع ہوتا ہے وہاں سے موٹر وے کے بائیں جانب 50 ہزار مربع میٹر پہ پھیلی پیلی پیلی عمارات ہیں جن کے اُوپر لال رنگ کا پالسن لکھا ہے۔
آپ پالسن کے اندر گاڑی پارک کر کے چاہیں تو باہر مزید اُن کے 90 ہزار مربع میٹر پر چہل قدمی کر لیں اور پھر واپسی پر پالسن سے گھر کے لیے برقی آلات خرید کر واپس آ جائیں یا واپسی سے قبل چوہدری محمد بلال علی وڑائچ سے مل لیں جو ممکنہ طور پر آپ کو اس عمارت کی پہلی منزل پر بائیں پھر دائیں لمبی راہ داری میں گھماتے بالا آخر چوہدری امانت علی وڑائچ، چیئرمین پالسن گروپ کے دفتر تک لے جائیں گے، جہاں بارسلونا کا وڈا چوہدری اپنے پاکستانی ہسپانوی ثقافتی رنگوں سے مُزین وسیع دفتر میں آپ سے ایسے ملے گا جیسے چار عشروں سے بارسلونا میں صرف آپ اُسے یا وہ آپ کو جانتا ہو۔
چوہدری امانت نے 40 سال قبل گھریلو استعمال کے برقی آلات سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ 1984 میں پالسن گروپ وجود میں آیا جو ترقی کرتے کرتے آج 50 کروڑ سالانہ نیٹ ورتھ کا حامل ہسپانیہ بھر میں واحد پاکستانی نژاد شخصیت کا کاروباری گرُوپ ہے۔
پالسن خود ایک برانڈ ہے، مال چین میں تیار ہوتا ہے اور ہانک کانگ، دبئی کے گوداموں سے 42 افریقی، عربی، ایشیائی اور یورپی ممالک کو بیچا جاتا ہے۔ کویّباتو، بارسلونا میں پالسن گروپ کا مرکزی دفتر ہے۔ کویّباتو کے ٹینس کورٹس اور کلبوں کو پالسن کا تعاون حاصل ہے، مقامی سکولوں کے بچوں کی فٹ بال کی ٹیمیں ہوں یا پاکستانی کھیلوں اور تعلیمی پروگراموں میں تعاون، پالسن پیش پیش ہے۔
چوہدری امانت پاکستان کے اعزازی کاروباری قونصل بھی رہ چُکے ہیں اور اب بھی پاکستانی سفارت خانہ میڈرڈ تا قونصل خانہ بارسلونا کی مشاورت سے اُن کی پاکستانی مصنوعات کی تجارتی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں۔ اپنے عہد میں ہسپانوی صفِ اوّل کی برانڈز ’زارا‘ اور ’مینگو‘ کو پاکستانی مارکیٹ کا رستہ دکھانے والے یہی ہیں۔ آج جو پاکستان ہسپانیہ تجارت کا بڑھتا حجم ہے اُس میں چوہدری امانت کا بڑا کردار ہے۔
اپنی کاروباری اور تجارتی مہارت کی وجہ سے وہ کئی بڑے ایوارڈ کاتالان اور ہسپانوی سطح پر اپنے نام کر چُکے ہیں۔ زبان و بیان میں فرفر ہیں۔ محنت کو کامیابی کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ہسپانوی معاشرے میں انضمام کو از حد ضروری اور زبان اور کم از کم جامعہ تک تعلیم کو لازم قرار دیتے ہیں۔ اشتہارات سے دُور رہتے ہیں اور کام کے قریب۔ بہت سے پاکستانیوں کو اپنے ذاتی کاروبار بنانے کی راہ پر ڈال چُکے ہیں، جن میں کتنے ہی آج بارسلونا کی معروف سماجی کاروباری شخصیات کے بینر کے تحت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائے پڑے ہیں۔
چوہدری امانت زندگی کو اُس رُخ سے دیکھتے ہیں جو نظر آتا ہے یعنی حقائق کی دُنیا۔ ان کے بیٹے چوہدری محمد بلال وڑائچ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بارسلونا آنے سے پہلے وہ دبئی میں پالسن کے کاروبار کے منتظم تھے اور اب یہاں بین الاقوامی کاروباری تعلقات کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اپنے والد کے ساتھ دو جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ پالسن کے وسیع و عریض حدُود و قیّود میں یا عالمی وفود کے ساتھ شِیرے میں چینی کی طرح کاروباری معاملات میں گُھلے ملے ملتے ہیں۔
چوہدری امانت کا چھوٹا بیٹا ہسپانوی جامعات سے فارغ ہو کر امریکہ سے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکا ہے اور بیٹی بھی دو، دو ماسٹر ڈگریوں کی مالکہ ہے۔
چوہدری صاحب کے کلام میں سب سے زیادہ اثر اُن کے والد صاحب کا ملتا ہے، کاروبار کا ذکر، پھر ہلکی پھلکی سیاسی سماجی بات چیت جس کا اکثر اخلاقیات اور محنت کے متعلق ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ہتھ چُھٹ قسم کی مہمان نوازی چلتی رہتی ہے۔
پھرشام چھ بجے وہ دو گھنٹے ورزش کے لیے کلب چلے جاتے ہیں اور یوں 40 سال سے زائد گُزر گئے۔ پاکستان کے ساتھ ہسپانیہ کا تجارتی حُجم بڑھانے کی تدابیر کرتے، ان گنت پاکستانیوں کے لیے رستے کھولتے وہ کسی خاموش دریا کی طرح کویباتو قصبے کی ایک طرف بہتے ہیں جہاں روز چڑھتا سُورج پالسن کے الفاظ کو سُنہری چادر پہناتا ہے، جس کے تحت سفیدی مائل پیلی عمارت ایک پاکستانی نژاد ہسپانوی کاروباری شخص کی داستان کویباتو آنے والوں کو بانہیں پھیلائے سمیٹنے کو تیار کھڑی ہے۔