اگر کوئی کسی وزیر اعلیٰ کو ’وٹس ایپ وزیر اعلیٰ‘ کہے تو ہم سمجھیں گے کہ وہ شاید وزیر اعلیٰ کے سیاسی مخالف ہیں یا باالفاظ دیگر سیاسی طور پر غیرمہذب ہیں لیکن اگر یہی الفاظ وزیر اعلیٰ کی اپنی جماعت کا کوئی رہنما ادا کرے تو پھر اسے نظر انداز نہیں کیا سکتا اور اس پر کان دہرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور سابق وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو آج کل جہاں جاتے ہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو ’وٹس ایپ‘ وزیر اعلیٰ کے لقب سے نوازتے سنائی دیتے ہیں۔
دراصل قدوس بزنجو کی ’وٹس ایپ وزیر اعلی‘ سے مراد یہ ہے کہ جام صاحب عوام اور اپنی ہی جماعت (بلوچستان عوامی پارٹی) کے رہنماؤں سے لاتعلق ہو کر ملک کا سب سے بڑا صوبہ ’وٹس ایپ‘ کے ذریعے چلا رہے ہیں۔
چند لمحوں کے لیے اس بات پر قہقہہ لگا کر اس طعنے کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ کلمات صوبائی اسمبلی کے سپیکر کے منہ سے سننے کو مل رہے ہوں تو یہ ایک سنجیدہ سیاسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ سپیکر کو تو غیرجانب دار ہونا چاہیے اور جب وہی سپیکر نگران گورنر کا کردار ادا کر رہے ہوں اور صدر پاکستان کے مندوب کی صورت میں وفاق کے نمائندہ ہوں تو ان پر اور زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ صوبائی حکومت پر تبصرہ کرنے کی بجائے غیرجانب دار رہیں۔
تاہم قدوس بزنجو کے کلمات اس لیے بھی جام کمال کو پریشان کر دینے کے لیے کافی ہیں کیونکہ انہوں نے صرف دو سال قبل ہی ایک ساتھ مل کر اسٹبلشمنٹ نواز بلوچستان عوامی پارٹی بنائی تھی۔ پتہ نہیں اس عرصے میں ان کی نظر بدل گئی ہے، راستے الگ ہونے کو ہیں یا قدوس بزنجو اپنی اس عادت سے مجبور ہیں جس کے تحت انھوں نے پچھلی حکومت میں بغاوت کی قیادت کرتے ہوئے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ سردار ثنا اللہ زہری کو گھر بھیج کر خود وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قدوس بزنجو آج جام کمال پر لطیفے تو سناتے ہیں لیکن انُ دنوں ملک بھر میں خود قدوس بزنجو کے بارے میں یہ لطیفہ مشہور تھا کہ 2008 کے عام انتخابات میں 57 ہزار ووٹرز کے حلقہ انتخاب پی بی 41 آواران سے صرف 544 ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے قدوس بزنجو ملک کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔ قدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کا چسکا کیا لگا کہ وہ اب بھی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہیں کامیاب بغاوت ہو جائے اور انھیں دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ قدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنی حمایت موجود ہے کہ وہ جام صاحب کو زرغون روڑ (جہاں وزیر اعلیٰ ہاؤس واقع ہے) بدر کر دیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان عوامی پارٹی ٹوٹے۔ انھیں گلہ محض اس بات کا ہے کہ جام صاحب اب کسی کی نہیں سنتے۔ وہ وٹس ایپ اور ٹوئٹر کے ذریعے صوبہ تن تنہا چلانا چاہتے ہیں۔ وہ مبینہ طور پر عوام سے ملنے اور مقامی سطح پر بلوچستان عوامی پارٹی کی جڑیں مضبوط کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
جام صاحب پر وٹس ایپ والے طعنوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں انکشاف کیا کہ وہ واقعی نہ صرف وٹس ایپ کا باقاعدہ استعمال کرتے ہیں بلکہ لگ بھگ دو درجن گروپس کے ایڈمن بھی ہیں۔ جام کمال کی حکومت گرانا قدوس بزنجو کے لیے اس وقت تک آسان نہیں ہوگا جب تک وہی قوتیں ان سے ناراض نہیں ہوتیں جنھوں نے اکٹھا کر کے بلوچستان عوام پارٹی بنائی۔
جام صاحب ان دھمکیوں کو شاید اس لیے بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ ابھی پچھلے مہینے ہی کی بات ہے کہ محمود خان اچکزئی نے (جن کی اس وقت بلوچستان اسمبلی میں محض ایک نشست ہے) بھی تین دسمبر کو کوئٹہ میں ایک جلسے میں دھمکی دی کہ ’اگر مولانا فضل الرحمٰن حکم دیں تو ہم جام سرکار گرا دیں گے۔‘ جام سرکار محاورے ہی میں نہیں بلکہ اصل میں اس وقت چاروں اطراف سے مشکلات اور دباؤ میں گھیرا ہوا ہے۔
پہلا، بلوچستان میں حکمران جماعت یا اتحاد میں اختلافات کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن ایسے حالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ماضی بعید اور قریب میں کئی وزرا اعلیٰ کو اپنی ہی جماعت یا اتحاد میں بغاوت کی وجہ سے گھر جانا پڑا تھا۔ قدوس بزنجو کی دھمکیوں کو دراصل بلوچستان کی سیاست میں ’کاشت کاری‘ کے موسم کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
بدلتی سیاست کا یہ وہ موسم ہے جب نئی سیاسی وفاداریوں کی کاشت کاری شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب حکومت کے اندر ہی سے لوگ کسی دوسری جماعت کو اشارہ دینا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت یا اتحاد سے اب چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ہونا کیا ہے؟ سیاست دان ایک دوسرے کے سامنے اپنے اپنے مطالبات وشرائط رکھ دیتے ہیں، جوڑ توڑ کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ایک وزیر اعلیٰ برطرف کیا جاتا ہے اور نئی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔
بیشتر اوقات اسلام آباد کی بس یہی خواہش رہی ہے کہ وزیر اعلیٰ جو بھی ہو، قبائلی اعتبار سے مضبوط ضرور ہوں، ان کے ذاتی سکیورٹی گارڈز ہوں تو بہتر اور آگے اپنے کارکناں کو دو وقت کا کھانا کئی دنوں اور مہنیوں تک کھلانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو سو بسم اللہ! جب یہ شرائط اور رسومات پوری ہوں تو پچھلی حکومت ہی کے بیشتر وزرا دوبارہ نئی حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جام صاحب کے ناراض ساتھی کس کو اشارے کر رہے ہیں؟
اسی سوال کو لے کر اب موضوع کا رخ اس دوسری بڑی مشکل کی طرف کرتے ہیں جس کا سامنا جام سرکار کو شروع دن سے رہا ہے۔ وہ ہے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) جو بلوچستان اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے بعد دوسری سب سے بڑی جماعت ہے۔ چند سال پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اختر مینگل، ثنا اللہ بلوچ اور مرحوم حبیب جالب جیسے شعلہ بیان مقررین کی یہ بڑی اسٹبلشمنٹ مخالف جماعت ایک دن آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ ڈالے گی۔
تاہم بی این پی نے پچھلے انتخابات کے بعد سے اپنی سیاسی حکمت عملی مکمل طور پر تبدیل کی ہے اور یہ سوچ کر مرکز میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کی حمایت کی کہ بلوچستان کے مسائل کا حل ملکی نظام کے اندر رہ کر ہی ممکن ہے اور پارلیمان اور سرکاری اداروں کا بائیکاٹ اور ان سے غیرحاضر ہونے سے بلوچوں کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
چنانچہ بی این پی نے پی ٹی آئی کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے تحت سابق وزیر اعلیٰ اور بی این پی کے صدر سردار اختر مینگل نے اسلام آباد کے سامنے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے چھ نکات پیش کیے ہیں۔ گذشتہ دو سالوں سے بی این پی اسلام آباد کو مستقل اشارے دے رہی ہے کہ وہ اپنے سخت گیر موقف میں لچک دیکھانے، پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں (یعنی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی) سے قطع تعلق کرنے، مذہبی قوتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے، سردار ثنا اللہ زہری کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرانے اور حتی کہ آرمی ایکٹ کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بس ضرورت اسلام آباد (بلکہ راولپنڈی) کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانے اور بی این پی پر اعتماد کرنے کی ہے کہ اگر ان کی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو اس سے ملکی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔
ایک تیسرا طبقہ جو جام کمال کے لیے درد سر بننے کی ناکام کوشش کرتا آ رہا ہے وہ ہے پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت۔ اگرچہ پی ٹی آئی سات نشستوں کے ساتھ صوبائی مخلوط حکومت کی دوسری سب سے بڑی جماعت ہے لیکن اسے گلہ اس بات کا ہے کہ مرکز میں ان کی جماعت کی حکومت ہونے کے باوجود انھیں جتنی عزت اور اہمیت ملنی چاہیے وہ نہیں مل رہی۔
سابق وفاقی وزیر سردار یار محمد رند نےغالباً یہ سوچ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی کہ ایک روز وہ بھی ثنااللہ زہری بنیں گے، جو نواز لیگ کی پچھلی حکومت آنے کے بعد وزیر اعلیٰ بنے تھے۔
لیکن اب کی بار سردار رند اور پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی کی کشمکش میں نظر انداز ہوتی گئی۔ پی ٹی آئی بلوچستان وقتاً فوقتاً وزیر اعظم سے مل کر اس بات کا گلہ بھی کرتی ہے کہ وفاق میں برسر اقتدار جماعت کی صوبائی شاخ ہونے کے ناطے انھیں جو عزت اور اہمیت ملنی چاہیے وہ نہیں مل رہی۔ وزیر اعظم جام کمال سے ملتے ہیں تو جہانگیر ترین تین، تین دن تک اختر مینگل سے۔ اگر باتیں اور مشورے ان سے ہونے ہیں تو پھر عمران خان کے وزیر اعظم ہونے کا پی ٹی آئی بلوچستان کو کیا فائدہ؟
چوتھا محاذ جس پر بلوچستان حکومت کو بدستور تنقید اور طعنے سننے کو ملتے ہیں وہ ہے نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جو مستقل طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد انھوں نے جو صوبائی حکومت قائم کی تھی اس نے حق و انصاف کے حوالے سے خلفائے راشدین کے دور کی یاد تازہ کی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
ان دنوں جماعتوں نے عوام کو خود سے اتنا مایوس کیا کہ انھیں پچھلے انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعد اب جب کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور بی این پی سب فوج کے سامنے جھک گئی ہیں، یہ دونوں جماعتیں اسٹبلشمنٹ مخالف، قوم پرستانہ کارڈ استعمال کر کے صوبائی سیاست میں ایک بار پھر کم بیک کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔
اگرچہ بلوچستان اسمبلی میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ دونوں جماعتیں جام حکومت کے خلاف براہ راست کوئی مشکل پیدا نہیں کر سکتیں لیکن ماضی قریب میں حکومت چلانے کا تجربہ حاصل ہونے کی وجہ سے وہ رائے عامہ کو صوبائی حکومت کے خلاف بدظن کر سکتی ہیں۔
اگر جام حکومت ناکام ہو جاتی ہے تو نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی باقی جماعتوں کے مقابلے میں یہ دعویٰ کر کے اس صورت حال کا فائدہ اٹھائیں گی کہ اسٹبلشمنٹ کی بھرپور حمایت کے باوجود یہ حکومت بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی اور عوام انھیں حکومت میں آنے کا ایک اور موقع فراہم کرے۔ ہماری عوام سیاست دانوں کی معاف کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔