ماحولیاتی تبدیلیوں کے ماہرین کے مطابق تباہ کن عالمی درجہ حرارت کے مسئلے سے نمٹنے کے معاملے میں 2020 ممکنہ طور پہ ایک بےحد اہم سال ہے جس میں انسانوں کو اس بارے میں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کی طرف جانے والے مشکل راستے میں بے شمار رکاوٹیں ہیں جن میں امریکی انتخابات سے لے کر بریگزٹ شامل ہیں۔
جب 2015 میں بین الاقوامی طور پہ درجہ حرارت میں اضافے کو دو درجے سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے لیے معاہدہ پیرس میں کیا گیا تھا تو اس وقت بالاتفاق یہ طے ہوا تھا کہ پانچ سال کے دوران تحفظ ماحول کے لائحہ عمل کو عملی شکل دے کر اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اسے بہتر بنایا جائے گا۔
2020 وہ سال ہے جس کے دوران ایک سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے تحفظ ماحول کے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہونا ہے۔ لیکن ابھی تک تین دہائیوں کی سفارتی کوششیں اس سے کہیں کم بارآور ثابت ہوئی ہیں جو سائنسی طور پہ موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے ضروری تھا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ سربراہ اجلاس جس میں عالمی رہنما گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے لائحہ عمل کو حتمی شکل دیں گے، رواں برس کے آخر میں نو نومبر کو گلاسگو میں شروع ہو گا۔ یہ اجلاس امریکہ میں صدارتی انتخاب کے صرف چھ دن کے بعد ہو گا جس میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور پر دوبارہ صدر بن سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں دنیا کو اس وقت چونکا دیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ، تاریخ میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والا ملک، پیرس معاہدے سے الگ ہو رہا ہے۔ اعلان کے مطابق امریکہ پیرس معاہدے سے چار نومبر کو علیحدہ ہو جائے گا۔
پرنسٹن یونیورسٹی میں جیوسائنسز اور عالمی امور کے پروفیسر مائیکل اوپن ہیمر کے مطابق ’ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید چار سال تک وائٹ ہاؤس میں ہونے کا مطلب ہو گا کہ دنیا کا اہم ملک عالمی سطح پر رہنمائی کرنے کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کی کوششوں سے دور رہے گا۔‘
’اس لیے اس کا مطلب ہے کہ چار برس تک موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ حل کرنے کی ذمہ داری دنیا کے دوسرے ملکوں پر ہو گی۔‘
جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ میں سمندری طوفانوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے لے کر آسٹریلیا اور کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنے والی تباہ کن آگ تک موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑی قدرتی آفات کے ایک سال بعد بھی اقوام عالم دسمبر میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی سالانہ کانفرنس ’کوپ 25‘ میں کسی پیش رفت میں ناکام رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سو سے زیادہ حکومتوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنے کی کوششیں دگنی کردیں گے لیکن سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک چین، بھارت، امریکہ اور یورپی یونین نے ابھی تک اپنے منصوبے منظرعام پر لانے ہیں۔
’کوپ 26‘کے صدر کلیئراونیل کے مطابق گلاسگو سربراہ مذاکرات میں تحفظ ماحول برطانوی حکومت کی’نمبر ایک عالمی ترجیح‘ہوگی۔ لیکن یہ ڈر بھی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ تجارتی مذاکرات جو تقریباً کوپ 26 انعقاد تک جاری رہیں گے سفارتی محاذ پر برطانیہ کی مکمل توجہ ان کی طرف رہے گی۔
تحفظ ماحول سے متعلق تھنک ٹینک ای تھری جی کے چیف ایگزیکٹو افسر نِک مابے نے کہا ہے کہ اعلیٰ سطح پر برطانیہ کی تمام تر توجہ بریگزٹ کے معاملے پر مرکوز ہے اور برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں تلخی آئی ہے، یہ ایک خطرہ ہے۔ بریگزٹ برطانوی حکومت کی نمبر ایک دفاعی سفارتی ترجیح ہے اور میرے خیال میں تحفظ ماحول پر کانفرنس کو جارحانہ سفارتی کاری کے حوالے سے پہلی ترجیح بنانے کی ضرورت ہے۔
2020 کے دوران تحفظ ماحول کے لیے سب سے بڑا لمحہ شاید امریکی صدارتی الیکشن یا عالمی موسمیاتی کانفرنس سے پہلے آئے گا۔ ستمبر میں لیپ زِگ میں ہونے والی یورپی یونین چین سربراہ کانفرنس کے حوالے سے امکان ہے کہ اس موقعے پر دنیا کی سب بڑی سنگل مارکیٹ دنیا میں سب زیادہ کاربن پھیلانے ملکوں پر زور دے گی کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے وعدے پورے کریں۔