پاکستان تحریک انصاف نے2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد متعدد سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر کے مرکز میں حکومت بنائی تاہم ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد اب تقریباً تمام اتحادی جماعتیں وفاقی حکومت کی کارکردگی اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے پورا نہ ہونے کا ذکر کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں ابتدا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ہوئی اور بعد میں تو جیسے لائن ہی لگ گئی۔
وفاقی حکومت کی سب سے بڑی حلیف مسلم لیگ ق، سندھ کی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور بلوچستان میں اکثریتی حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے وفاقی حکومت سے شکایات کے انبار لگا دیے۔
اس بہتی گنگا میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی ہاتھ دھونے کی ٹھانی اور ان کی طرف سے ناراضگی کے اظہار کے بیانات اور پیغامات آنا شروع ہو گئے۔
حمایت کی شرائط
قومی اسمبلی کے 336 اراکین میں سے تحریک انصاف حکومت کو 177 ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے، جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی) کے چار اراکین بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں بی این پی مینگل کے چاراراکین میں پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے علاوہ آغا حسن بلوچ، محمد ہاشم نوتیزئی اور خاتون رکن پروفیسر شہناز بلوچ شامل ہیں جبکہ پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں ایک رکن ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال 2018 کے انتخابات کے بعد بی این پی مینگل نے چھ نکاتی ایجنڈے کے تحت تحریک انصاف سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔
بی این پی مینگل کے چھ مطالبات میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی، وفاقی اداروں اور محکموں کی نوکریوں میں بلوچستان کے چھ فیصد کوٹے پر عمل درآمد، بلوچستان میں ڈیموں کی تعمیر اور افغان پناہ گزینوں کی پاکستان اور خصوصاً بلوچستان سے واپسی شامل تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گیے خصوصی انٹریو میں پی این پی مینگل کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو اتحادی حکومت میں آئے ڈیڑھ سال تو ہوگیا لیکن اب تک ان کے چھ مطالبات میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف ثواب کمانے کے لیے تو حکومت کی حمایت نہیں کرتے رہیں گے۔
بی این پی ہمیشہ سے حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہ ہونے کا گِلہ کرنے کے باوجود تحریک انصاف حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بلوچستان سے اس قوم پرست جماعت کی مجبوری بھی لگتی ہے کیونکہ اتنے کم ایم این ایز کے ساتھ بی این پی مینگل حمایت واپس لے کر تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کوکوئی بہت بڑا نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
حکومتی کوششیں
وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا کام اتحادیوں سے بات چیت کرنا، ان کے مطالبات اور اعتراضات سننا، ان کا حل نکالنا اور سب سے اہم یہ کہ انھیں حکومت کی حمایت جاری رکھنے پر راضی رکھنا ہے۔
وفاقی حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے اس سلسلے میں بی این پی مینگل کے رہنماؤں سے بھی رابطے کیے ہیں اور ایک ملاقات کے بعد آئندہ اجلاس تین چار روز میں متوقع ہے۔