جن کھلاڑیوں کو سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف یہ کہہ کر ڈراپ کردیا گیا تھا کہ پاکستان کرکٹ کو جوان خون کی ضرورت ہے وہ اب ایک بار پھر ٹیم میں شامل کرلیے گئے ہیں۔
صرف تین مہینوں میں تیرہ کھلاڑیوں کی الٹ پلٹ سے مصباح کا کھلاڑیوں پر اعتماد نہ صرف مجروح ہوا ہے بلکہ ایک مضبوط کمبینیشن بھی بن نہیں سکا ہے۔
ٹی ٹونٹی میں آئی سی سی کی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر ہونے کے باوجود ٹیم کی اجتماعی کارکردگی مصباح کے کوچ بننے کے بعد سے مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔
پچھلے اکتوبر میں سری لنکا کے خلاف شعیب ملک اور محمد حفیظ کو ڈراپ کرکےکئی بار آزمائے ہوئے عمر اکمل اور احمد شہزاد لائے گئے حالانکہ موقف تو یہ تھا کہ نوجوانوں کو موقع دینا ہے۔ پاکستان ٹیم کے یہ دونوں چلے ہوئے کارتوس جب مزید نہ چل سکے تو دو میچوں کے بعد ڈراپ کردیا گیا۔
امید یہ تھی کہ تیسرے میچ میں بھی کسی نوجوان کھلاڑی کو موقع ملے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا البتہ ہوم سیریز کی شکست نے کپتان سرفراز کو گھر بٹھا دیا۔
آسٹریلیا کے دورے پر ایک بار پھر ٹیم میں تبدیلیاں ہوئیں لیکن حفیظ اور شعیب کو جگہ نہ ملی۔ کپتان بدلا اوپنر بدلے بولر بدلے مگر نتیجہ نہ بدلا۔
تین میں سے دو میچوں میں ایک بار پھر شکست نے کوچ کو جھنجھلا کر رکھ دیا۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ یکے بہ دیگرے دو سیریز ہار دیں۔
کبھی ہاں کبھی ناں کے بعد جب بنگلہ دیش نے موجودہ دورے کی حامی بھر لی تو مصباح پر شکست کا خوف طاری ہونے لگا کیونکہ ٹیم میں تو وہی کھلاڑی ہیں جو سری لنکا کی بچوں کی ٹیم سے اپنی ہی سرزمین پر شرمناک شکست کھا چکے ہیں، اسی لیے بنگلہ دیش کے خلاف کھیلنے کے لیے کوچ کو پھر شعیب اور حفیظ کی یاد ستانے لگی۔
اس اکتوبر میں چالیسویں سالگرہ منانے والے حفیظ اس وقت کسی بھی ملک کی ٹی ٹونٹی ٹیم کے سب سے عمر رسیدہ کھلاڑی ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ موصوف بولنگ بھی نہیں کرسکتے ان کی بیٹنگ بھی پچھلے دس میچوں میں سطحی سی رہی ہے۔ پندرہ اننگز میں صرف ایک دفعہ پچاس سے زائد رنز بناسکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح عمر کی 39 بہاریں دیکھنے والے شعیب ملک بھی پچھلے دس میچوں میں کوئی قابل ذکر اننگز نہیں کھیل سکے ہیں، بولنگ وہ شاذ ونادر ہی کرتے ہیں۔
اگر چلے ہوئے کارتوسوں پر ہی بھروسہ کرنا تھا تو کامران اکمل سے زیادہ کوئی مضبوط امیدوار نہیں ہے جو مسلسل کئی برس سے پی ایس ایل کے کامیاب ترین بلے باز ہیں اور فرسٹ کلاس میں بھی تواتر سے اسکور کررہے ہیں۔ ان کی وکٹ کیپنگ پر اعتراضات کیے جا سکتے ہیں لیکن بلے بازوں کی قلت میں وہ زیادہ کام آسکتے تھے۔
اگر ڈومیسٹک کارکردگی پر انتخاب کیا جاتا تو احمد شہزاد ایک قوی امیدوار تھے جن کی عدم شمولیت پر کیون پیٹرسن اور عبدالرزاق نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔
محمد حفیظ اور شعیب ملک کی شمولیت پر جہاں ماہرین کرکٹ حیران ہیں وہیں ساتھی کھلاڑی بھی انگشت بدنداں ہیں کیونکہ دونوں کھلاڑی حالیہ کرکٹ لیگز میں بھی بجھے بجھے سے ہیں شاید اسی لیے ان دونوں کے انتخاب پر کافی لے دے ہورہی ہے۔
بنگلہ دیش کے خلاف حارث رؤف اور احسان علی ایک منصفانہ اضافہ ہیں جنھوں نے اپنی کارکردگی سے ٹیم میں جگہ بنائی ہے۔
ٹیپ بال سے کرکٹ کا آغاز کرنے والے حارث رؤف تو آسٹریلین بگ بیش لیگ سے عالمی شہرت اختیار کرچکے ہیں ان کی تیز اور کاٹ دار بولنگ نے ڈیل آسٹین اور بریٹ لی کو بھی متاثر کیا ہے اور اب وہ لوگ ان کی کارکردگی کا کریڈٹ لے رہے جو انہیں پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن میں لاہور قلندرز سے فارغ کرنا چاہ رہے تھے لیکن عاقب جاوید کی مزاحمت نے انھیں باقی رکھا۔
بنگلہ دیش سے شکست کے خوف میں جب پہلا میچ کھیلنے پاکستانی ٹیم قذافی سٹیڈیم میں اترے گی تو کپتان بابر اعظم سے زیادہ کوچ اور سلیکٹر مصباح الحق پر دباؤ ہوگا جن پر ہر طرف سے تنقید ہورہی ہے اور وہ اپنے آئیڈیل عمران خان کی طرح ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔
بنگلہ دیش کی ٹیم بظاہر کمزور نظر آتی ہے۔ ان کے دو ٹیم ونر شکیب الحسن اور مشفق الرحیم ٹیم میں شامل نہیں لیکن محمود اللہ کی قیادت میں تمیم الحسن اور مستفیض الرحمن پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ اچھا موقع ہوگا کہ وہ ہوم سیریز کا فائدہ اٹھا کر اپنا اعتماد بحال کرسکے تاہم سری لنکا کے خلاف گزشتہ سیریز کو دیکھتے ہوئے کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔
کیا عمر رسیدہ شعیب اور حفیظ ٹیم کو کوئی کمک پہنچا سکیں گے؟ یہ تو اگلے ہفتے پتہ چل جائے گا لیکن دونوں کی شمولیت سے مصباح کا نوجوان کھلاڑیوں کو زیادہ موقع دینے والا موقف غلط ثابت ہوتا ہے۔