نومبر میں حکمران جماعت کے پارلیمانی ارکان اجلاس کے دوران ایک حکومتی رکن نے حکومت کے غربت مٹاؤ فلیگ شپ پروگرام پر ایک غیر متوقع حملہ کر دیا۔
انہوں نے ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کے سیاسی مخالف کے ووٹرز کو فائدہ پہنچا رہی ہیں نہ کہ ان کے ووٹرز کو۔ نرم گفتار ڈاکٹر ثانیہ نشتر وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور تخفیف غربت پروگرام ہیں۔ جلد ہی کچھ اور آوازیں بھی ان الزامات کا حصہ بن گئیں۔
خبر رساں ادارے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ کابینہ میں ایک ’چھوٹی سی اقلیت‘ ہے جو چیزوں کو پرانے انداز سے کرنا چاہتی ہے اور جو سماجی تحفظ کے پروگرام پر سیاست کرنا چاہتی ہے۔ ایسے پروگرام ماضی میں سیاست کے لیے استعمال کیے جاتے تھے جن کا مقصد ووٹ بینک قائم کرنا ہوتا تھا۔‘
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ ’وزیر اعظم اس حوالے سے بہت واضح سوچ رکھتے ہیں کہ یہ پروگرام غیر سیاسی بنیادوں پر چلنا چاہیے۔ اور جب تک میں یہاں پر ہوں یہ ایسے ہی چلے گا۔‘
سال 2015-2016 کے سروے کے مطابق پاکستان کی 38.4 فی صد آبادی کثیرالجہتی غربت کا شکار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں صرف کم آمدنی ہی کا سامنا نہیں بلکہ صحت، بجلی، صاف پانی اور تعلیم تک بھی رسائی نہیں ہے۔ غربت کے شکار افراد کی اکثریتی تعداد رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں رہتی ہے۔
رواں سال کے آخر تک ایک نیا سروے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
گذشتہ سال مارچ میں نئی حکومت نے ملک میں تخفیف غربت کے سب سے بڑے پروگرام کی بنیاد رکھی جسے احساس پروگرام کہا جاتا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت غریبوں کی مدد کے لیے 134 پالیسیز متعارف کروائی گئیں جن کا مقصد بیواؤں، یتیموں، مزدوروں، طلبہ، کسانوں اور بزرگ شہریوں کومعاونت فراہم کرنا تھا۔
یہ ایک مشکل کام تھا لیکن ڈاکٹر ثانیہ نشتر جانتی تھیں کہ انہیں سیاسی محاذ سے مخالفت کا سامنا ہو گا۔ ان کے مطابق جب وزیر اعظم عمران خان نے ان سے رابطہ کر کے انہیں کابینہ میں شمولیت کی پیشکش کی تو وہ تذبذب کا شکار تھیں۔ انہوں نے کام کرنے کی مکمل آزادی کی یقین دہانی پر یہ ہامی بھری۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کہتی ہیں کہ ’وزیر اعظم عمران خان ایک ایسے انسان محسوس ہوتے ہیں جو غریبوں کے مسائل حل کرنے میں مخلص ہیں۔ میں نے آج تک وہی کیا ہے جو ٹھیک ہے اور اگر مجھے وزیر اعظم کی حمایت نہ حاصل ہوتی تو میں آج یہاں نہ ہوتی۔‘
مارچ سے ایک کے بعد پروگرام ماہانہ بنیادوں پر شروع کیے جا رہے ہیں جن کی عوامی تقریبات میں وزیر اعظم خود بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پروگراموں میں سوپ کچن، اور بے گھر افراد کے لیے شیلٹر ہومز بنانا شامل ہے۔ وہ خواتین جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے ان کے لیے کفالت پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں انہیں ماہانہ دو ہزار روپے کا وظیفہ دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو روکنے کی کوششوں کے باوجود ان کا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔ گذشتہ مہینے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سے 8 لاکھ افراد کو نکال دیا گیا ہے۔ یہ پروگرام 2008 میں شروع کیا گیا تھا جس کے تحت بغیر ذرائع آمدن والی خواتین کو امدادی رقم دی جاتی تھی۔ اب یہ پروگرام احساس پروگرام کے تحت آگیا ہے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے صحافیوں کو بتایا کہ نکالے جانے والے نام ’غیر مستحق‘ افراد کے تھے۔
نکالے جانے والے ناموں میں سے ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین کے نام بھی شامل تھے جب کہ کچھ افراد گاڑیوں اور گھروں کے مالک تھے۔ ان کے علاوہ کئی افراد بیرون ملک دورے بھی کر چکے تھے۔
حکومت کی جانب سے ان افراد کے نام نکالے جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس اقدام کو ’غریب خواتین پر معاشی حملہ‘ قرار دیا تھا۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کہتی ہیں کہ ’حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی مجھ سے ملنے آئے اور شکایت کہ ان کے گھر کی ملازمہ کا نام بھی بی آئی ایس پی سے نکال دیا گیا ہے کیوں کہ وہ عمرے پر جا چکی ہیں۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ ملازمہ آپ کے گھر میں ہی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا کہ ان کے کھانے پینے کا اور باقی اخراجات آپ اٹھاتے ہیں تو ان کا کہنا تھا ہاں۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کوئی اور خاتون اس امدادی رقم کی زیادہ مستحق ہے؟ یہ پروگرام سب سے غریب طبقے کے لیے ہے۔‘
بی آئی ایس پی اور کفالت پروگرام کا مقصد پاکستان میں ستر لاکھ خواتین کی مالی معاونت کرنا ہے۔
گذشتہ ہفتے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اعلان کیا ہے کہ امداد کی سہ ماہی رقم کو چھ ہزار تک بڑھا دیا جائے گا۔