امریکی گلوکارہ سلینا گومیز نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے سابق بوائے فرینڈ جسٹن بیبر نے تعلق کے دوران ان کے ساتھ جذباتی بدسلوکی کی۔
ایک انٹرویو کے دوران 27 سالہ گلوکارہ پہلے اس حوالے سے بات کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک متاثرہ فرد کے طور پر یہ ایک خطرناک چیز ہے۔ میرا مقصد کسی کی ہتک کرنا نہیں ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی یقینی طور پر بدسلوکی کا شکار رہی ہوں۔‘
جسٹن بیبر نے سلینا گومیز کے اس دعوے پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا لیکن وہ اپنے ماضی کے رویے کی جانب اشارہ کر چکے ہیں۔ گذشتہ سال کے آخر میں انسٹاگرام پر پوسٹ کیے جانے والے ایک بیان میں انہوں نے لکھا کہ کیسے وہ ’19 سال کی عمر میں منشیات کا زیادہ استعمال کرتے تھے اور کیسے خود سے منسلک لوگوں سے بدسلوکی سے پیش آئے۔‘
جسٹن بیبر نے خود کو ’غصیلا، خواتین سے بدتمیزی کرنے والا اور مشتعل‘ انسان قرار دیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ’ان تمام بری عادتوں اور برے فیصلوں سے واپسی اختیار‘ کرچکے ہیں۔
یہ سلینا گومیز کے لیے بہت بہادری کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے ماضی کے تعلقات کے تجربے کو اس طرح بیان کیا ہے۔ انہوں نے یقینی طور پر وہ منفی ہیڈلائنز دیکھی ہوں گی جو ان کی گفتگو کے دوران صحافیوں کی آنکھوں کے سامنے گردش کرتی رہی ہوں گی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔
سلینا سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ جسٹن بیبر نے جو آپ کے ساتھ کیا وہ جذباتی استحصال تھا؟ تو ان کا جواب تھا: ’ہاں اور یہ کچھ ایسا تھا جسے سمجھنے کے لیے مجھے کوشش کرنا پڑی۔‘
جذباتی بدسلوکی، زبردستی قابو کرنا اور معاشی استحصال، کے تباہ کن نتائج پر اب کئی برسوں سے بات کی جا رہی ہے۔ بدسلوکی کی یہ قسم عوامی طور پر اس وقت سامنے آئی جب سیلی چیلین کا معاملہ سامنے آیا جنہوں نے 2009 میں اپنے شوہر کو 31 سال کی شادی کے بعد اس وجہ سے قتل کر دیا تھا کیونکہ کئی برس تک بدسلوکی سہنے کے بعد ان کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
سیلی چیلین کے مقدمے میں کورٹ آف اپیل نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا جس میں زبردستی قابو میں کیے گئے متاثرین کی جانب سے دفاع کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر جرم کی ذمہ داری کو کم کر دیا گیا۔ فیمنسٹ تنظیم جسٹس فار ویمن کا شکریہ کہ اس قانونی پہچان کو اب ان خواتین کی اپیلوں کا بھی حصہ بنایا جا رہا ہے جنہیں ایسے اہم نکتے کو اپنے دفاع میں بہت پہلے شامل کرنا چاہیے تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اہم بات یہ ہے کہ سلینا گومیز کے بیان نے اس بات کو ظاہر کیا ہے کہ وہ خود بھی اُس وقت اس بدسلوکی کو سمجھ نہیں سکیں جب وہ اس کا شکار ہو رہی تھیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ شاید کسی متاثرہ فرد کی ’توہین‘ کر ڈالیں کیونکہ وہ اس حوالے سے مشکل حالات کی شکار خواتین کے مقابلے میں اپنے تجربے کو کم تلخ سمجھتی ہیں۔ یہ اس استحصال کے گرد موجود غیر یقینی صورت حال کو بہت واضح انداز میں ظاہر کرتا ہے جو خواتین کے سامنے نہ آنے کی وجہ ہے۔ ہم کیسے امید کرسکتے ہیں کہ خواتین اس بارے میں بات کریں گی جب وہ اس بدسلوکی کے دوران اس کو سمجھ ہی نہیں سکتیں؟
رواں سال ستمبر میں سکولوں کے نصاب میں تعلقات اور سیکس ایجوکیشن سے متعلق مواد میں لائی گئی تبدیلیوں کو لاگو کیا جائے گا۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں ایل جی بی ٹی پلس، فیمیل جینیٹل میوٹلیشن (خواتین کے ختنے)، غیر مطلوبہ جنسی تصاویر، جنسی ہراسانی اور گرومنگ (کم عمر بچوں کے جنسی استحصال) سے متعلق شقوں کو شامل کیا جائے گا۔ نیا نصاب طلبہ کو بدسلوکی کی تمام اقسام کو سمجھنے اور رپورٹ کرنے کی آگاہی بھی دے گا۔ ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔
جب نو عمر بچے منتظر ہیں کہ انہیں رشتوں کے حوالے سے درکار اہم معلومات تعلیم کے دوران مہیا کی جائیں تو ان کے پاس دوستوں، خاندان اور پاپ کلچر سے جاننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا۔ نیٹ فلکس کے بہترین سیریل ’سیکس ایجوکیشن‘ کا دوسرا سیزن اس تعریف کا مستحق ہے جو اسے مل رہی ہے کیونکہ جس ذہانت اور ہنرمندی سے اس نے جنسی تشدد، ایل جی بی ٹی پلس تعلقات، بلیئنگ اور بلوغت سے جڑے مسائل کو حساسیت کے ساتھ لیکن شرمائے بغیر دکھایا ہے وہ لائق تحسین ہے۔
تعلیم اور نوجوانوں کے لیے ٹی وی پروگراموں میں بہتری آنے کے باوجود ہزاروں ایسے افراد ہوں گے جو کبھی بھی رشتوں اور جنسی تعلقات سے متعلق معیاری تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے۔ کئی خواتین سیلی چیلین کی طرح کے حالات میں ہی قید ہوں گی۔ لاتعداد ایسی خواتین ہیں جو جذباتی بدسلوکی والے رشتوں میں پھنسی ہوئی ہیں اور ان میں کئی خواتین کو اندازہ بھی نہیں کہ ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ اور وہ جو اس سے فرار چاہتی ہیں یا مقدمات درج کرانا چاہتی ہیں، نظام ان کے خلاف نظر آتا ہے۔ استحصال کرنے والا ان طریقوں پر بھروسہ کرتا جن میں خواتین کو غلط سمجھا جاتا ہے: جب وہ تعلق میں ہوتی ہیں اور جب وہ اس حوالے سے سوچ رہی ہوتی ہیں اور جب اور جس وجہ سے وہ ان رشتوں سے باہر آتی ہیں۔ آج ہی ویمن ایڈ 2019 کے آڈٹ میں یہ سامنے آیا ہے کہ گذشتہ سال گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین میں سے دو تہائی کی درخواستوں کو رد کر دیا گیا کیوں کہ مدد حاصل کرنے کی خواہاں خواتین کی تعداد ’قانونی معاونت کے لیے موجود ناکافی وسائل‘ سے بہت زیادہ تھی۔ اس کمی کو خیراتی اداروں کی مدد سے مشروط کر دیا گیا۔
مشہور شخصیات سے متعلق ایسی خبروں کو بعض اوقات غیر سنجیدہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ غیر سنجیدہ ہوتی بھی ہیں، لیکن سلینا گومز کا بیان اور جسٹن بیبر کا اپنے ماضی سے متعلق اعتراف، یہ بہت اہم بات ہے۔ استحصال اور بدسلوکی کی علامات کو پہچاننا اور یہ جاننا کہ استحصال مشہور یا امیر شخصیات کا فرق روا نہیں رکھتا اس آگاہی کے لیے ضروری ہے جو نوجوان لڑکیوں کو اس سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
یہ کہانیاں مشہور شخصیات کی آپسی رنجشیں یا گپ شپ نہیں ہیں۔ یہ استحصال کو روکنے میں ہماری مدد کرنے والے اہم نکات ہیں۔
© The Independent