راولپنڈی میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کا پہلا ٹیسٹ آج سے کافی پاپڑ بیلنے کے بعد شروع ہو رہا ہے۔
پاکستان اس ہوم سیریز کو کروانے کے لیے کافی عرصے سے کوشش میں تھا۔ کبھی ہاں کبھی نہ کے بعد بنگلہ دیش دو قسطوں میں ٹیسٹ کھیلنے پر راضی ہوا حالاں کہ آئی سی سی کے موجودہ قوانین کے مطابق بنگلہ دیش کو بغیر کسی حجت کے دونوں ٹیسٹ پاکستان کی سرزمین پر کھیلنا تھے۔ پاکستان کی داخلی صورت حال کو وجہ بنا کر بنگلہ دیش سیریز پاکستان سے باہر کھیلنے کی کوششیں کرتا رہا تاہم پاکستان کے سخت گیر رویہ اور کچھ اندرون خانہ باہمی سودے بازی کے بعد بلآخر ٹیسٹ شیڈول طے پاگیا۔
پاکستان کی موجودہ ٹیم جس نے سری لنکا کے دورے سے قبل خاصا مشکل وقت گزارا ہے اور 2018 میں لارڈز ٹیسٹ کے بعد پےدرپے شکستوں نے ٹیم کا اعتماد کرچی کرچی کر دیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ یہ ٹیم زمبابوے سے بھی نہیں جیت سکتی ہے لیکن سری لنکا سے ٹیسٹ میں اور بنگلہ دیش سے ٹی ٹوئنٹی میں جیت نے نہ صرف اوسان بحال کیے ہیں بلکہ کئی ایک کھلاڑی جن کے کیرئیر کے اختتام کی باتیں ہونے لگی تھیں اب پھر سے ناقدین کی آنکھوں کے تارے بن گئے ہیں۔
پہلے ٹیسٹ میں پاکستان بنگلہ دیش کے خلاف فاسٹ بالنگ کو ہتھیار بنائے گا یا یاسر شاہ اور بلال آصف کی سپن بولنگ پر بھروسہ کرے گا یہ ایک ایسا سوال ہے جو کوچ مصباح الحق سے بار بار کیا گیا ہے لیکن مصباح کے جواب ہمیشہ کی طرح سانپ سیڑھی کے کھیل کی مانند غیرواضح اور ملے جلے سے رہے ہیں۔
پاکستان نے اپنے جس سولہ رکنی سکواڈ کا اعلان کیا ہے اس میں صرف دو تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ کاشف بھٹی کی جگہ بلال آصف کو اور محمد موسیٰ کی جگہ فہیم اشرف کو لیا گیا ہے۔
کاشف بھٹی کو آسٹریلیا بھی لے جایا گیا لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ کنویں کے قریب جا کر بھی وہ پیاسے ہی واپس آگئے۔ سری لنکا کے خلاف وہ پانی کی بوتلیں تو اٹھاتے رہے مگر گیند نہ اٹھا سکے اور اب بنگلہ دیش کے خلاف چیف سیلیکٹر مصباح الحق نے یہ کہہ کر ڈراپ کر دیا کہ ان کی ضرورت نہیں۔ اب موصوف سے کوئی پوچھے کہ کاشف کو آپ نے موقع کب دیا حالانکہ راولپنڈی ٹیسٹ میں وہ کھلائے جانے کے مستحق تھے۔
اسی طرح موسیٰ کو جلد بازی میں آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف میدان میں اتار کر اس کے کیرئیر سے کھیلا گیا۔ ان کی جگہ آنے والے فہیم اشرف بھی شاید پانی ہی پلاتے رہیں گے۔
بیٹنگ میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو شاید نہ ملے کیونکہ شان مسعود نے پریکٹس میچ میں سنچری بنا کر اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔ دوسرے اوپنر عابد علی تو ویسے ہی زبردست فارم میں ہیں۔ مڈل آرڈر میں اظہر علی، بابر اعظم، اسد شفیق اور حارث سہیل ہی رہیں گے جبکہ بولنگ میں بلال آصف اور محمد عباس میں مقابلہ ہوتا نظر آتا ہے۔ اگر وکٹ پر گھاس نہ ہوئی تو ممکن ہے عباس آرام کریں لیکن توقع ہے کہ پاکستان فاسٹ ٹریک کو ترجیح دے گا۔
بنگلہ دیش کی ٹیم کچھ بکھری بکھری سی ہے۔ مومن الحق کی قیادت میں ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی نئے اور کم تجربہ کار ہیں۔ ٹیم کے سب سے سینیئر مشفق الرحیم اور شکیب الحسن شامل نہیں ہیں جس سے ٹیم بیٹنگ کے شعبے میں کمزور نظر آتی ہے۔
اوپنر تمیم اقبال کافی عرصہ کے بعد ٹیسٹ سکواڈ میں آئے ہیں۔ پاکستان پہنچنے سے دو روز قبل ہی فرسٹ کلاس میچ میں ٹرپل سنچری بنا کر انہوں نے پاکستانی بولروں کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ زبردست فارم میں ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے اوپنر کون ہوں گے یہ ابھی معلوم نہیں۔ ممکن ہے نوجوان سیف حسن کو ڈیبیو کرایا جائے یا پھر سومیا سرکار اوپننگ کریں۔
مڈل آرڈر میں کپتان مومن الحق محموداللہ اور لٹن داس ہی قابل ذکر ہیں جو پاکستانی بولنگ کا مقابلہ کرسکتے ہیں باقی غیر معروف اور ناتجربہ کار ہیں۔
بولنگ میں امین الحسین اور روبیل حسین فاسٹ بولنگ جبکہ محمود اللہ اور تاج الاسلام سپن کا شعبہ سنبھالیں گے۔ یہ سب مل کر بھی شاید ہی پاکستانی بلے بازوں کو مشکل وقت دے سکیں سب سے تجربہ کار روبیل حسین سب سے خراب اوسط رکھنے والے بولر ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ سیریز اگر حلوہ نہیں تو لوہے کے چنے بھی نہیں ہے کیونکہ بنگلہ دیش ٹیم ہر لحاظ سے کمزور بھی ہے اور ناتجربہ کار بھی۔ پاکستان کی بیٹنگ نے پچھلی سیریز سے نہ صرف استحکام دکھایا ہے بلکہ رنز کے انبار لگا کر بلے بازوں نے آئی سی سی رینکنگ بھی بہتر بنائی ہے۔
بابر اعظم جن کا ستارہ مسلسل بلندی کی جانب پرواز کر رہا ہے ان کے لیے بہترین موقع ہوگا کہ وہ مزید اچھی اننگز کھیل کر اپنے ریکارڈز مزید مستحکم کر لیں۔ دوسرے بلے بازوں کے لیے بھی سنہری موقع ہوگا کہ رنز کا انبار لگا کر اگلی دو چار سیریز کے لیے سیٹ پکی کرلیں۔
بولنگ میں نسیم شاہ اور شاہین شاہ بجلیاں گرانے کو بےتاب ہیں۔ دونوں نے جس طرح سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں بولنگ کی تھی اس سے پاکستان کا بولنگ اٹیک بہت مضبوط ہوگیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاسر شاہ کی تیز فلیپر کھیلنا بھی بنگلہ دیش بلے بازوں کے لیے سخت امتحان ہوگا۔ اس بات سے قطع نظر کہ بنگلہ دیش کس قدر کمزور ہے اور پاکستان مضبوط ہے کوچ مصباح الحق کو یاد رکھنا ہوگا کہ اسی بنگلہ دیش کی ایک نو آموز کمزور ٹیم نے 2003 میں ملتان ٹیسٹ میں پاکستان کی مضبوط ٹیم کو تقریباً شکست کے دھانے پر پہنچا دیا تھا۔ وہ تو انضمام الحق جم گئے تھے اور جنم بھومی ملتان میں ٹیل اینڈرز کے ساتھ مردانہ وار اننگز کھیل کر ٹیم کو سرخرو کر دیا تھا۔
پاکستان ٹیسٹ تو جیت گیا تھا لیکن وکٹ کے پیچھے راشد لطیف کے ایک متنازع کیچ نے اس ٹیسٹ کے نتیجہ کو کافی حد تک آلودہ کر دیا تھا۔ اس دھوکے بازی پر مبنی کیچ نے راشد لطیف کا کیریئر ختم کر دیا تھا۔
بنگلہ دیش آج بھی اس ٹیسٹ کو یاد کرتا ہے۔
کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ہر لمحے کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے جس سے مضبوط ٹیمیں کمزور حریفوں سے مات کھا جاتی ہیں اور بنے بنائے جیت کے نقشے الٹ جاتے ہیں۔
اظہر علی اینڈ کمپنی کو اپنے اسلحہ خانہ کا بھرپور جائزہ لے کر سوچنا ہوگا کہ بنگلہ دیش ایک آسان حریف ثابت ہوگا یا مشکل، کیونکہ اپنی ہی سرزمین پر ایک ہار سینکڑوں جیتوں کا مزہ کرکرا کر دیتی ہے۔
راولپنڈی کے ٹیسٹ گراؤنڈ پر آخری میچ سری لنکا کے خلاف پچھلے دسمبر میں کھیلا گیا جو بارش سے متاثر ہوا تھا لیکن تین دن کے کھیل میں تماشائیوں کی تعداد شاید سکیورٹی پر متعین پولیس اہلکاروں سے بھی کم تھی۔ اب بنگال ٹائیگرز کے ساتھ شاہیینوں کو نبرد آزما دیکھنے کتنے شائقین آتے ہیں اس کا اندازہ پی سی بی مینیجمنٹ کی مستعدی سے لگایا جاسکتا ہے جو سیریز کی ٹرافی کی رونمائی بھی مناسب طریقے سے نہیں کراسکی ہے۔