وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ مبینہ طور پر قومی سلامتی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات پر سماجی کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ گل بخاری سمیت 35 افراد کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ان تمام افراد کو نوٹسز بھجوا دیے گئے ہیں۔
حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ ’ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے قومی سلامتی اداروں، عدلیہ اور حکومت مخالف اشتعال انگیز پروپیگنڈے میں ملوث عناصرکے خلاف تحقیقات شروع کی ہیں۔‘
ایف آئی اے کے مطابق بیشتر تحقیقات کا تعلق سائبر دہشت گردی سے ہے جبکہ بلوچستان لبریشن آرمی اور حقانی نیٹ ورک کے علاوہ بیرون ملک بیٹھ کر مبینہ طور پر اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لاتے ہوئے انکوائری شروع کی گئی ہے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق گل بخاری کو نوٹس ان کے راولپنڈی اور برطانیہ کے پتے پر ارسال کیا گیا ہے اور انہیں وضاحت دینے کے لیے 30 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ اگر اس دوران جواب نہیں آتا تو PECA (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔
نوٹس کے مطابق عدالتی حکم کے بعد معاہدے کے تحت گل بخاری کو واپس وطن لایا جائے گا۔
حکام کے مطابق تمام قانونی کارروائی مکمل کرکے انٹرپول سے بھی رابطہ کیا جائے گا اور عدم پیشی کی صورت میں گل بخاری کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بھی ضبط کرلی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر گل بخاری سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے بات نہیں ہوسکی، تاہم انہیں وٹس ایپ پر پیغام بھیج دیا گیا ہے۔
گل بخاری نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کوئی باقاعدہ پیغام جاری نہیں کیا تاہم لوگوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ان کی حمایت کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ کچھ لوگ ان پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
گل بخاری کے پاس برطانوی شہریت بھی ہے اور آج کل وہ وہیں مقیم ہیں۔ وہ پاکستانی اخبار ’دی نیشن‘ میں کالم بھی لکھتی رہی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر قومی اداروں اور اسٹیبشلمنٹ پر بھی ان کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ دفاعی کمیٹی میں چیئرمین کمیٹی امجد نیازی نے ایف آئی اے کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دنیا بھر میں ان کے سکیورٹی اداروں اور ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور سخت قوانین ہیں لیکن پاکستان میں ملکی مفاد اور قومی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر بولنے والوں کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا۔ اس معاملے کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔‘
جس پر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے کمیٹی میں بتایا تھا کہ سوشل میڈیا پر ملکی مفاد اور اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے اب تک 21 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 61 شکایتیں درج کروائی گئی تھیں۔