پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں رکشہ چلا کر گزر بسر کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ رکشہ ڈرائیور محمد سلیم کو پنجاب حکومت کی جانب سے ایک لاکھ روپے امداد دی گئی ہے۔
ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ محمد سلیم نے انگلش سمیت مختلف مضامین میں چار ایم اے کر رکھے ہیں۔ انہوں نے ایم ایڈ بھی کیا لیکن درس و تدریس کے شعبے میں انہیں اپنی تعلیم کے ہم پلہ نوکری نہ مل سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ رکشہ چلا کر اپنے 11 بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے گذشتہ ماہ محمد سلیم کی کہانی کو شائع کیا تھا، جس کے بعد لاہور انتظامیہ کی جانب سے ان سے رابطہ کیا گیا اور ڈی سی او لاہور دانش افضال کی جانب سے ان کے گھر ایک لاکھ روپے کا چیک مالی امداد کی مد میں بجھوایا گیا۔
محمد سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ تنگ دستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ایسے میں مالی امداد ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بے شک مالی امداد سے انہیں عارضی سہارا ضرور ملے گا لیکن انہوں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کی تعلیمی قابلیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں شعبہ تعلیم میں کوئی باعزت روزگار دے دیا جائے تاکہ وہ تعلیمی شعبے میں خدمات انجام دے سکیں اور علم کی روشنی پھیلانے میں کردار ادا کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ وہ رحیم یار خان سے یہاں روزگار کے لیے آئے اور کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں لہذا انہیں بیوی بچوں کو رکھنے کے لیے ایک تین یا چار مرلے کا گھر فراہم کردیا جائے۔
محمد سلیم نے مزید بتایا کہ ان کی کہانی شائع ہونے کے بعد انہیں پاکستانی نژاد برطانوی پبلشر کا فون آیا کہ اب وہ جو بھی کتاب لکھیں گے اس کی پرنٹنگ کے اخراجات وہ خود اٹھائیں گے۔ اسی طرح پاکستانی پبلشر بھی ان سے رابطہ کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب وہ انگریزی زبان میں شاعری پر مبنی کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسے کسمپرسی کے حالات میں آپ علم و ادب سے ہی جڑنے کو ترجیح کیوں دے رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ حالات جو بھی ہوں لیکن علم ان کا شوق ہے۔ ’پہلے علم حاصل کرنا شوق تھا، اب پھیلانے کوترجیح دیتاہوں۔‘
سلیم نے کہا کہ مالی مشکلات سے حوصلے پست نہیں ہونے چاہییں۔ وہ مایوس نہیں بلکہ اپنی جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں اور رکشہ چلاکر دو وقت کی روٹی عزت سے کمانے کو مایوسی پر ترجیح دیتے ہیں۔