خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی ضلع وزیرستان سے رکن صوبائی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما میر کلام وزیر کا کہنا ہے کہ انہیں اسمبلی میں آئے ہوئے پانچ مہینے ہوگئے ہیں لیکن قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو قانون سازی میں حصہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی وہ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے رکن بن سکے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں میر کلام نے بتایا کہ حکومت نے بہت وعدے کیے تھے کہ قبائلی اضلاع میں تبدیلی آئے گی اور ان اضلاع کی ترقی کے لیے کام کیا جائے گا لیکن اب تک صرف اتنی تبدیلی آئی ہے کہ ہم اسمبلی میں آئے ہیں اور دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ پہلے پولیٹیکل ایجنٹ ہوا کرتا تھا اور اب یہ کردار ڈپٹی کمشنر ادا کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’ہم منتخب ہو کر اسمبلی ضرور آئے ہیں لیکن ہمیں قبائلی اضلاع کے مستبقل کے حوالے سے کسی بھی فیصلے میں شامل نہیں کیا جاتا، عدلیہ کا نظام بھی وہاں پر موجود نہیں ہے، ایف سی آر بھی ختم کردیا گیا اور پاکستان کے قوانین بھی وہاں نافذ نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے ایک ڈی پی او کو ہر ضلع میں بھیجا گیا ہے لیکن وہاں موجود خاصہ دار فورس کی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں سہولیات دی گئی ہیں، جبکہ پولیس نظام کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے وزیرستان میں پولیس کے پاس صرف چار گاڑیاں ہیں۔‘
قبائلی اضلاع کے لیے ترقیاتی پیکج کا کیا ہوا؟
میر کلام نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ یہ دعوے تو کرتے ہیں کہ قبائلی اضلاع کے لیے 83 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن اب تک صرف چار ارب روپے ہی خرچ ہوئے ہیں اور وہ بھی ترقی یافتہ کاموں پر نہیں بلکہ دیگر چیزوں مثلاً وی آئی پیز پروٹوکول وغیرہ پر خرچ کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم عمران خان اور موجودہ حکومت نے قبائلی اضلاع کے ساتھ جو وعدے کیے تھے، جن میں یونیورسٹی، کالج اور ہسپتال بنانا شامل تھے، ان میں سے کسی بھی پراجیکٹ پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا ہے جس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
میران شاہ بازار کا کیا مسئلہ ہے؟
وزیرستان کے میران شاہ بازار کے متاثرین نے بدھ سے پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے، جن کا مطالبہ ہے کہ ان کی جن دکانوں اور مارکیٹوں کو مسمار کیا گیا تھا ان کا ازالہ کیا جائے۔ اس حوالے سے میر کلام نے بتایا کہ یہ مسئلہ تب شروع ہوا جب وہاں کے لوگوں کی دکانوں کو آپریشن کے دوران مسمار کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے بعد حکومت نے متاثرین سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو اس نقصان کا معاوضہ دیا جائے گا اور اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ نے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی جس میں متاثرین کے لیے رقم بھی مختص کی گئی تھی لیکن حکومت اس سے مکر گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلے حکومت نے ان متاثرین کو فی مرلہ 45 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب ان کو 15 لاکھ روپے دیا جا رہا ہے جو متاثرین کو قبول نہیں۔‘
پی ٹی ایم حکومت سے مذاکرات کیوں نہیں کر رہی؟
اس حوالے سے میر کلام کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ تو ہم بات کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مسائل حل ہو جائیں لیکن حکومت سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ ایک دن وفاقی وزیر پرویز خٹک مذاکرات کی بات کرتے ہیں، ہم ان کی پیشکش کو سراہتے ہیں لیکن اگلے روز ہی پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو گرفتار کرلیا گیا۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم تو امن کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو راؤ انوار کو سزا دینے کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو لاپتہ افراد کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایسی کیا بری بات ہے جس کی وجہ سے ہم پر غداری کے ٹھپے لگائے جاتے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی ایم والے قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کو گرفتار کیا جائے گا؟ اس پر میر کلام نے جواب دیا کہ ’ہم نے ایسا کیا کیا ہے جس سے ملک کا قانون توڑا گیا ہو۔ ہم تو بارودی سرنگوں کو صاف کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس میں کیا چیز خلاف قانون ہے۔ ہم تو امن کی بات کرتے ہیں تو اس میں کیا خلاف قانون ہے۔ اگر ایک بندہ متاثر ہوا ہے اور اپنی فریاد لے کر حکومت کے پاس جاتا ہے تو ان کو کیوں غدار قرار دیا جاتا ہے۔‘
پی ٹی ایم نے کئی مواقع پر ریاستی اداروں پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں جن کی تردید ریاستی اداروں، حکومتی وزرا اور پاکستان فوج کے ترجمان کی جانب سے بارہا کی گئی ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر پاکستان فوج کے سابق ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پی ٹی ایم کو بیرون ممالک سے فنڈنگ کی جاتی ہے، جس کی پشتون تحفظ موومنٹ نے تردید کردی تھی۔
کیا پی ٹی ایم کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کام رک گئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں میر کلام کا کہنا تھا کہ ’قبائلی اضلاع سے صرف میں، علی وزیر اور محسن داوڑ نہیں ہیں، باقی بھی ارکان ہیں اور تحریک انصاف کے بھی ارکان ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ ان کو کیا ملا ہے اور ان کے علاقوں میں کیا ترقیاتی کام ہوئے ہیں؟‘