ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کے ضلع چاغی کی تحصیل تفتان میں کرونا وائرس کے پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ ہے اور سرحد پر موجود لوگوں کو پاکستان ہاؤس میں رکھا گیا ہے، جنہیں 14 روز بعد کلیئر ہونے کے بعد ہی جانے کی اجازت دی جائےگی۔
صوبائی حکومت کے مطابق پا ک ایران سرحد پر 270 افراد موجود ہیں جن میں کرونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی جارہی ہے۔
دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو تسلیم کرتے ہیں کہ ایران جانے والے زائرین کی تعداد چھ ہزار ہے، جن کی آمد کی صورت میں تفتان کی سرحد پر کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کرونا وائرس کو روکنے کے لیے تمام تر اقدامات کر رہی ہے لیکن تفتان میں زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ عام شہریوں کو ابھی تک اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں دی گئی ہے۔
ضلع چاغی کا واحد بڑا ہسپتال دالبندین میں قائم ہے جو تفتان سے 289 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور جس پر ضلع کی دو لاکھ سے زائد آبادی کا انحصار ہے، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا دالبندین کے پرنس فہدسلطان ویلفیئر ہسپتال میں کرونا سے بچاؤ کے لیے تمام سہولیات موجود ہیں؟
یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک مقامی صحافی فاروق بلوچ سے رابطہ کیا، جو اس ہسپتال کا دورہ کرکے آئے ہیں۔
فاروق بلوچ نے بتایا کہ پرنس فہد ہسپتال میں کُل ڈاکٹروں کی تعداد چار ہے۔ ہسپتال میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کو رکھنے کے لیے صرف دو کمرے مختص کرکے انہیں آئسولیشن وارڈ کا نام دیا گیا ہے جبکہ سکریننگ کے لیے تھرمل گن دی گئی ہے۔
کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے تفتان کے بنیادی ہیلتھ یونٹ میں بھی صرف چند کمرے مختص کرکے اسے آئسولیشن کا نام دیا گیا ہے اور ملازمین ماسک پہنے کھڑے ہیں۔
فاروق بلوچ نے بتایا کہ حکومت کے دعوے کے مطابق ایران میں کرونا سے ہلاکتوں کے بعد جو ڈاکٹر تفتان لائے گئے ہیں، وہ تو وہاں موجود ہیں، لیکن علاقے میں اس مرض کی روک تھام کیسے ہوگی، اس کے لیے کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آتا۔
کیا بلوچستان کے عوام کرونا وائرس سے آگاہ ہیں؟
بلوچستان کے سرحدی اضلاع کے رہائشیوں کو کرونا وائرس اور اس سے بچاؤ کے ضمن میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
تفتان کلی سٹیشن کے رہائشی عبدالخالق بھی اس صورت حال سے پریشان اور خوف کا شکار ہیں۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ کرونا ایک مرض ہے جو چین سے آیا ہے۔
عبدالخالق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تفتان میں لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں اور کاروبار اور تجارت بند ہوکر رہ گئی ہے۔
عبدالخالق کے مطابق: ’یہاں لوگوں کو اتنا معلوم ہے کہ کرونا کوئی مرض ہے لیکن یہ کس طرح پھیلتا ہے اور خود کو کیسے بچایا جائے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس مرض سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ماسک پہننا ہے، یہاں سب نے ماسک پہن رکھے ہیں اور ہر کوئی خوف کا شکار ہے۔‘
عبدالخالق نے بتایا کہ سرحد کی بندش اور کرونا نے جہاں لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہے، وہاں تفتان میں کاروبار بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور اشیائے خورد ونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
عبدالخالق کی طرح چاغی کے دیگر علاقوں کے مکین بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار اور خوف وہراس میں مبتلا ہیں۔
اس صورت حال پر کچھ عرصہ قبل عہدے سے ہٹائے گئے صوبائی وزیر صحت نصیب اللہ مری نے بھی تشویش کا اظہار کیا، جن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کو معمولی مرض کے علاج کی سہولت نہیں ملتی، ایسے میں اگر کوئی بڑا مسئلہ ہوگیا تو اس کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظامات نظر نہیں آتے۔