پاکستانی فضائیہ کی جانب سے بھارتی طیارہ مار گرانے اور پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری کے بعد رہائی کے واقعے کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اسے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کا نام دیا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس ایک سال میں کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔ جہاں پاکستان نے بابا گرونانک کے دربار کی روشنیاں بحال کیں اور دوربین سے اس دربار کو دیکھنے والے کئی سِکھ یاتریوں کی تمناؤں کو پورا کرتے ہوئے کرتارپور راہداری کا تحفہ دیا، وہیں بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرکے 80 لاکھ مسلمانوں کو یرغمال بنا لیا اور اگر یہ کم تھا تو متنازع شہریت کا بل متعارف کروا کے بھارت میں رہنے والے کئی مسلمانوں کو بے گھر کردیا۔
آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کس نہج پر رہے اور مستقبل میں یہ تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز سے گفتگو کی۔
جنہوں نے بتایا کہ ’14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ واقعے کے بعد بھارت نے بلا تحقیق پاکستان پر سارا الزام لگا دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پلوامہ واقعے کی اصل حقیقت پر سے اپنے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے 27 فروری کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حدود کی پامالی کی، چھ سات درخت گرائے، ایک کوا مارا اور اپنا پائلٹ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس واقعے کے بعد بھارت کو بہت خفت اٹھانا پڑی۔ اب دنیا کو یہ واضح طور پر پتا چل گیا ہے کہ بھاتی فوج کا رویہ غیر پیشہ ورانہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کا دورہ کیا۔ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے دہلی میں مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا، ان کے گھروں کو نظرِ آتش کیا گیا اور مساجد کی بے حرمتی کی گئی۔ اگر تمام چیزوں کا جائزہ لیں تو بھارت اپنی اس ہار کو اب تک بھولا نہیں ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بھارت اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پھر کوئی فلیگ آپریشن کرے۔ مجھے نہیں لگتا کہ نریندر مودی کے ہوتے ہوئے حالات بہتر ہوں گے بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے، اس حد تک کہ بھارت ٹوٹنا شروع ہوجائے گا۔ اگر سوویت یونین ایک مضبوط آرمی کے ساتھ 15 ریاستوں میں تقسیم ہو سکتی ہے تو مجھے اس بات کا امکان لگ رہا ہے کہ بھارت مختلف ریاستوں میں ٹوٹ جائے گا۔‘
27 فروری کی اہمیت اور دونوں ممالک کے مستقبل میں تعلقات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک اور دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ غضنفر علی سے بھی بات کی، جنہوں نے بھارت کے غیر انسانی رویے کی وجہ جاننے پر زیادہ زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور بھارت کے تعلقات کبھی بھی تاریخی طور پر اچھے نہیں رہے۔ بھارت کے اندر موجود مذہبی طبقہ، خاص طور سے بی جے پی اور آر ایس ایس کا جو گٹھ جوڑ ہے، ان کے ذہنوں میں یہ سوچ رچ بس چکی ہے کہ پاکستان کا قیام ایک غلط فیصلہ تھا۔‘
’آپ دیکھیں بھارت کے وجود میں آنے کے چند دن بعد ہی ان کے مہاتما گاندھی کو قتل کردیا گیا تھا اور انہیں گولی مارنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس پارٹی کا رکن تھا جو آج بھارت میں برسرِ اقتدار ہے۔ آر ایس ایس بنیادی طور پر وہ جماعت ہے جو نہرو اور ہٹلر کی فاشسٹ سوچ سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی۔ جب یہ جماعت بنی تھی تو ایم ایس گوالیکر نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ جو بھارت وجود میں آرہا ہے وہ ہندو مذہب کے ماننے والوں کے لیے بنایا جارہا ہے۔‘
پاکستان اور بھارت کے تعلقات خراب ہونے کی اصل وجہ کے تعین اور مستقبل کے امکانات پر غور کرتے ہوئے بریگیڈیئر ریٹائرڈ غضنفر علی نے مزید کہا کہ ’آر ایس ایس پر تین مرتبہ انگریزوں کے زمانے میں پابندی لگی، پھر گاندھی کے قتل کے بعد لگی لیکن آج یہی جماعت بھارت میں اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ انہوں نے مذہب کے اندر سیاست کو ملا دیا اور ایک نئے فلسفے کو جنم دیا، جسے یہ ہندوتوا کہتے ہیں۔ اس کی آڑ میں تشدد کی لہر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں، دلی، کلکتہ یا جھاڑکھنڈ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کے اندر حالات اس قدر خراب ہیں کہ اس سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات جو پہلے ہی خراب تھے ان میں مزید بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’بھارت کی انتہا پسند قیادت دنیا کے سامنے کچھ بھی کہہ لے لیکن وہ اصل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا نہیں چاہتی کیوں کہ پاکستان مخالف سوچ بیچ کر ہی تو ان کا ملک چل رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آگے بھی یہی رہے گا بلکہ اس میں زیادتی ہوگی، کسی نہ کسی تنازع کی صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن بھارت کی کسی چال سے ہم کئی قدم آگے ہیں، اس کا احساس بھارت کو بہت جلد ہوجائے گا۔‘