صحرا ئے تھر لوک گیتوں کی سر زمین ہے۔ صحرا کے دامن میں آباد لوگ قحط کے دکھ، بادلوں کے انتظار، بارش کی تمنا یا ساون رت کے سنہری دنوں میں جب مور ناچتے ہیں، معاشرتی زندگی کے رسم و رواج ، تہذیب و ثقافت سے جڑے جذبات جیسے تمام احساسات کو زندگی کے ہر قدم پر لوک گیتوں میں گا کر بیان کرتے ہیں۔
تھر کے لوک گیت اس خطے کا سرمایہ ہیں، جن سے ریگستان کے لوگوں کی زندگی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ تھر کے لوک گیت صدیوں کا سفر طے کر کے نسل در نسل منتقل ہوتے آئے ہیں۔
ادبی نقاد کہتے ہیں کہ لوک گیت ایسی صنف ہے جس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں ان کے بول اتفاقیہ طور پرچند حساس لوگوں کے کیفیات کی ترجمانی بن کر نکلے، پھر وہ زبان زد عام ہو گئے ہوں گے، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔
ان گیتوں میں بچوں کی لوریاں، بڑوں کے لیے پندونصیحت،موسموں کا تغیر، شادی بیاہ کی رسومات، ہجر و وصال کے دکھ اور راحتیں، شجاعت کی گل فشانیاں، سخاوت و فیاضی کی داستانیں،ایثار و قربانی کے بیان،ہمدردی کا جذبہ، حسن وعشق کی روداد اور سر و ساز کے آہنگ ،سب کچھ ہی ان گیتوں میں موجود ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چرمی تھر کا بےحد مقبول لوک گیت ہے، جب ساون رت میں گھنگھور گھٹائیں پیاسے صحرا پر برستی ہیں اور بارش کی بوندوں سے دھرتی کے ساتھ روح بھی راحت سے معمور ہوجاتی ہے۔ جب ہریالی چاروں طرف چھا جاتی ہے۔ صحرا کے پھولوں سے من مہکتا ہے۔ ان لمحوں میں چرمی کا لوک گیت بے ساختا ہونٹوں پے آ جاتا ہے۔ پیار و پریت کا اظہار، شکوے و شکایتیں سب چرمی کے بولوں میں ڈھل کر گونجنے لگتیں ہیں۔ جنگل ہو کہ مال مویشی کے باڑے، چراگاہوں سے لے کر بستیوں کی چہل پہل میں سگھڑوں کی محفل، ہر جگہ چرمی کے سر آلاپے جاتے ہیں۔
چرمی ہے کیا؟ اور اس کی یہ اہمیت کیوں ہے؟ اس حوالے سے تھر کے نامور محقق حاجی محمد کمہار بتاتے ہیں کہ ’اراولی رینج کے پہاڑی سلسلے سے لے کر ننگرپارکر کے کارونجھر تک چرمی کی بیل پائی جاتی ہے۔چرمی کی بیل میں لال گلابی رنگ کے دانے ہوتے ہیں جو پرانے زمانے میں سنار سونا تولنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ چرمی کی اہمیت سونے کا وزن کرنے کے حوالے سے ہے۔ لال رنگ کے چرمی کے دانے کا منھ کالا ہوتا ہے۔
مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ چرمی ایک پھاڑی بیل ہے جو تھر کے پہاڑی سلسلے کارہنجھر میں اگتی ہے۔ پرانے وقت میں چرمی کے بیج کے دانوں کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ سنار سونے کا وزن کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ چرمی کا بیج لوبیا کے دانے کے برابر سرخی مائل رنگت کا ہوتا ہے جس کا اوپری حصہ کالے رنگ کا ہوتا ہے۔
چرمی کے بیج کو مقامی لوگ چینوٹھی اور کانگڑی بھی بولتے ہیں۔ تھر کے حکما چرمی کے بیج اور پتوں سے مختلف امراض کےلیے دوائیں بھی بناتے ہیں۔
تھر کے لوک گیتوں پر رقم الحروف، حاجی محمد کمہار، پروفیسر نوراحمد جنجھی نے بہت کام کیا ہے۔ سب کی یہ رائے ہے کہ تھر کے جو مقبول ترین لوک گیت ہیں ،ان میں چرمی کی بڑی اہمیت ہے۔
یوں تو چرمی کے لوگ گیت کو تھر کے ہر ایک فنکار نے گایا ہے لیکن مراد فقیر اور مائی بھاگی نے گا کر عالمی شہرت بخشی۔ آج بھی کوئی چرمی کا گیت گائے تو سننے والے کے ذہن میں مراد فقیر اور مائی بھاگی کا نام آ جائے گا۔
چرمی کہتی ہے کہ اے سونا تو میری بات سن! ساری بات کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اگر تم سورما ہو تو میرا رنگ بھی دیکھو۔
سونا کہتا ہے کہ کالے منہ والی کامنی تو بڑی بات مت کر۔ ترازو میں تو میرے ساتھ تولی جاتی ہو لیکن تمہاری قیمت میرے برابر نہیں۔
چرمی جواب دیتی ہے کہ اے سونا! میری بیل سبز رنگ کی ہے۔ میرا لال رنگ ہے۔ میں کالے منہ والی تب ہوئی جب تم جیسے کنجوس کے ساتھ میں ترازو میں آئی۔
سونا سنار کو کہتا ہے کہ میرا خوبصورت رنگ ہے۔ تو مجھے کالے منہ والی چرمی کے ساتھ تولتا ہے۔
چرمی بلا لے سے ناز اٹھاتی ہے۔ چرمی کا بلالے سے محبت ہے۔ اس چرمی کو بارش کا پانی پلاؤ۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔
چرمی بابا کی لاڈلی ہے۔ جس کو نت نت بارش کا پانی پلاؤ۔ جس کو نت نت اپنے میکے بیج دو۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔
ندی کنارے پر پیپل کا درخت ہے۔ اس کی چار شاخیں ہیں۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔ اس چرمی کو نت نت اپنے میکے بیج دو۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔
اس پیپل کی ایک شاخ پر میرا جیٹھ (شوہر کا بڑا بھائی) اور جیٹھانی جی بیٹھے ہیں۔ دوسری شاخ پر گورل آپ بیٹھی ہے۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔ اس چرمی کو نت نت اپنے میکے بیج دو۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔
میرے بابا جی نے بیر کا درخت اگایا ہے۔ جس کے بیر میٹھے ہیں۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔ اس چرمی کو نت نت اپنے میکے بیج دو۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔