شہرِ قائد کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی اور انسداد تجاوزات سمیت دیگر مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے گذشتہ روز گولیمار میں پیش آنے والے واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کراچی میں عمارت گرنے سے 16 لوگ مرے، لیکن حکام آرام سے سوئے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے آج کراچی رجسٹری میں سرکلر ریلوے کی بحالی اور انسداد تجاوزات سمیت دیگر مقدمات کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی، صوبائی وزیر سعید غنی، میئر کراچی وسیم اختر، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین اور سیکرٹری بلدیات روشن شیخ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کل عمارت گر گئی اور رات کو آپ سب سکون سے سوئے ہیں، کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہے؟ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ایک ہفتے تک نہیں سوئی تھیں۔‘
جس پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے: ’یہ سب کارروائی دکھاوے کے لیے کی گئی ہے، چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر اونچی عمارتیں بنا دیتے ہیں، ہم نے کہا تھا غیر قانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ دیں اس کا کیا ہوا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ وہ رپورٹ تیار کرلی گئی ہے۔
گرین لائن کے آغاز سے متعلق چیف جسٹس کے استفسار پر انہیں بتایا گیا کہ یہ پروجیکٹ تین سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’تین سال میں تو پورے ایشیا کے منصوبے مکمل ہو جائیں، یہ مہینوں کا کام ہے، کیا رکاوٹ ہے جو کام وقت پر پورا نہیں ہوتا؟‘
جس پر متعلقہ حکام نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ اگلے سال گرین لائن مکمل ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگلے سال کیوں، اس سال کیوں نہیں؟ ٹھیکے دار کو پیسہ اس وقت دیتے ہیں جب آپ کا کمیشن ملتا ہے، یہ پورا گینگ ہے، صرف کاغذات میں کام ہو رہا ہے، شہید ملت روڈ، کشمیر روڈ، ناظم آباد کا حال کیا کر دیا، یونیورسٹی روڈ تباہ کر دی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن، واٹر بورڈ کس کس کی بات کریں، سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہے۔‘
چیف جسٹس نے کراچی کے علاقے گولیمار میں عمارت منہدم ہونے کے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کل بلڈنگ گری 16 لوگ مرے، لیکن سب آرام سے سوئے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ نیوزی لینڈ میں واقعہ ہوا تو وزیراعظم تک کو صدمہ تھا، کل جو لوگ مرے، ان کا کون ذمہ دار ہے، کسی کو احساس بھی ہے کہ لوگ مر رہے ہیں؟‘
بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو سرکلر ریلوے پر پیش رفت سے آگاہ کرنے کا حکم دیا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے بتایا کہ سرکلر ریلوے میں پیش رفت ہوئی ہے، کراچی ماس ٹرانزٹ پلان ترتیب دیا گیا ہے اور گرین لائن، اورنج لائن مکمل کی جا چکی ہیں۔
تاہم چیف جسٹس نے کراچی ماس ٹرانزٹ کے نقشے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نقشے میں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔
ساتھ ہی جسٹس گلزار احمد نے 1995 کی سرکلر ریلوے بحال کرنے اور اس کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ گرین یا اورنج لائن اور دیگر منصوبوں کے لیے انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنائے جائیں اور سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔